2024 کے عام انتخابات کے لئے ماحول تیار ہو چکا ہے، ہر کوئی اپنے مطابق سیاسی مہرے بٹھانے میں مصروف ہے
ڈاکٹر یامین انصاری
2024ء کے عام انتخابات کے لئے ماحول تیار ہے، ہر جماعت اور اتحاد اپنے مطابق سیاسی بساط بچھانے میں مصروف ہے۔ کوئی تنہا خم ٹھوکنے کو تیار ہے۔ کوئی علاقائی سطح پر صد فیصد کامیابی کے دعوے کر رہا ہے، تو کوئی اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ جیت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہیں کچھ ماہر سیاستداں اور بڑے سیاسی کھلاڑی وزیر اعظم کے عہدے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اس دوران کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے سب کا دھیان اپنی طرف کھینچا ہے۔
وہیں دوسری جانب مختلف ریاستوں میں علاقائی اور قومی سیاسی جماعتوں میں بی جے پی کی توڑ پھوڑ مہم سے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔ بی جے پی کی اس توڑ پھوڑ مہم کو ’آپریشن لوٹس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کچھ ریاستوں میں بی جے پی کا یہ آپریشن کامیاب رہا ہے تو کچھ ریاستوں میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کانگریس بھی بار بار اس کا شکار ہوئی ہے۔ اس سب کے درمیان راہل گاندھی نے ایک بار پھر پارٹی میں نئی جان پھونکنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کا آغاز
مشن 2024ء کیلئے ملک کے جنوبی سِرے کنیا کماری سے کانگریس پارٹی کی جانب سے بھارت جوڑو یاترا زور و شور سے شروع ہوئی ہے۔ کنیا کماری سے سری نگر تک پانچ ماہ سے زیادہ طویل عرصے تک چلنے والی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے کانگریس کے لیڈران اور کارکنان انتہائی پرجوش ہیں۔ راہل اور کارکنان کے چہرے پر ایک چمک نظر آ رہی ہے اور ان کے ساتھی قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا ملک کے انتہائی جنوبی کنارے کنیا کماری سے شروع ہوئی ہے جس کی قیادت راہل گاندھی کررہے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی 3؍ ہزار 570؍ کلومیٹر کی یہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ ملک کی 12؍ ریاستوں اور مرکز کے 2؍ زیر انتظام علاقوں سے ہوکر گزرے گی۔
اس دوران پارٹی کم از کم 100؍ پارلیمانی حلقوں میں براہ راست پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ دیگر پارلیمانی حلقوں کے لئے بھی اس نے پورا منصوبہ تیار کیا ہے جسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ کانگریس نے راہل گاندھی سمیت 118؍ ایسے لیڈروں کا انتخاب کیا ہے، جو کنیا کماری سے کشمیر تک کے پورے سفر میں ان کے ساتھ ہوں گے۔
تمل ناڈو کے کنیا کماری سے شروع ہونے والی یہ یاترا کیرالہ کے ترواننت پورم، کوچی اور نیلمبور تک جائے گی۔ اس کے بعد یہ کرناٹک کے میسور، بیلاری، رائچور، تلنگانہ کے وقارآباد، مہاراشٹر کے ناندیڑ، مدھیہ پردیش میں جلگاؤں جمود، اندور پہنچے گی۔ یہاں سے راجستھان میں الور،کوٹا، دوسہ، اتر پردیش میں بلند شہر، دہلی، ہریانہ میں امبالا، پنجاب میں پٹھان کوٹ ہوتے ہوئے جموں اور سری نگر پہنچے گی، جہاں یاترا کا اختتام ہوگا۔
کانگریس کے سینئر لیڈران نے ’بھارت جوڑو‘ یاترا کے آغاز سے پہلے کہا کہ ملک میں نفرت کا ماحول ختم کرنے اور سب کو آپس میں جوڑنے کے لیے بھارت جوڑو یاترا کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس یاترا سے نفرت کو کم کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسی کوششیں کرکے نفرت کا ماحول ختم نہ کیا گیا تو ملک میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
بھارت جوڑو یاترا ایک اچھی پہل
راہل گاندھی کی قیادت میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ ایک اچھی پہل ہے۔ کیونکہ اس وقت کانگریس پارٹی کی حالت خستہ ہے اور وہ اپنے سب سے خراب دور سے گزر رہی ہے۔ اس یاترا سے یقیناً پارٹی میں نئی جان پھونکنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی یہ یاترا لوگوں کے درمیان جانے، ان کے مسائل اور رجحان کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران ریاستی اور قومی سطح کے لیڈران کے ذریعہ کانگریس چھوڑنے کے سلسلہ نے پارٹی کارکنان کو مایوس کر دیا تھا۔ ان میں یہ احساس گھر کر گیا کہ کانگریس پارٹی میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور شاید پارٹی کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایسی مایوسی کے عالم میں راہل گاندھی کی یہ کوشش کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔
گاندھی جی نے پورے ہندوستان کا معائنہ کیا
سیاسی جماعتوں اور اہم سیاستدانوں کے ذریعہ مختلف ناموں سے ’یاترائیں‘ نکالی جاتی رہی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جد و جہد آزادی کے علمبردار اور مجاہد آزادی گوپال کرشن گوکھلے نے مہاتما گاندھی سے کہا تھا کہ اگر آپ ہندوستان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پورے ہندوستان کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا۔ پھر گاندھی جی نے فقیرانہ لباس پہن کر ہندوستان کا معائنہ کیا اور ہندوستانیوں کی زمینی حقیقت اور حالت زار دیکھی۔ جس کے بعد انہوں نے ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔
آزاد ہندوستان میں معروف سماجوادی لیڈر چندر شیکھر نے1983ء میں چار ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر طے کیا تھا۔ ان کی پد یاترا تامل ناڈو میں کنیا کماری سے دہلی کے راج گھاٹ تک چلی۔ اس دوران انہیں ملک کے تمام مسائل کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ سنیل دت نے امن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک طویل پد یاترا کی۔ 1987ء میں انہوں نے پنجاب میں عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بمبئی سے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل تک دو ہزار کلومیٹر کا سفر کیا۔ ان مشہور سیاست دانوں کے علاوہ این ٹی راما راؤ، ایل کے اڈوانی، وائی ایس راج شیکھر ریڈی اور جگموہن ریڈی کی یاتراؤں نے مختلف ذرائع سے ہندوستان کو سمجھنے کی کوشش کی۔
آپریشن لوٹس کا معاملہ
ایک طرف جہاں کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا جاری ہے۔ وہیں دوسری جانب حکمراں بی جے پی کانگریس سمیت سبھی اپوزیشن جماعتوں میں انتشار پیدا کرنے اور ان میں توڑ پھوڑ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ حال ہی میں گوا میں اہم اپوزیشن کانگریس کے 11؍ میں سے 8؍ اراکین اسمبلی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ ان میں سابق وزیر اعلیٰ دگمبرکامت اور اپوزیشن لیڈر مائیکل لوبو بھی شامل ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر سیاسی حلقوں میں ’آپریشن لوٹس‘ کی چرچہ تیز ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے آپریشن لوٹس کا معاملہ دہلی میں زور و شور سے اٹھا، جب عام آدمی پارٹی نے اسے مسئلہ بنایا اور کہا کہ بی جے پی ان کے اراکین اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے پریس کانفرنس میں اپنے چار ایم ایل اے کو بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ جنہوں نے کہا کہ بی جے پی لیڈروں نے ان سے رابطہ کیا اور پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اس کے بدلے میں ایم ایل اے نے 20؍ سے 25؍ کروڑ روپے دینے کو کہا تھا۔ ویسے 2014ء میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی لوگوں کی زبان پر’ آپریشن لوٹس‘ کا لفظ آگیا۔
آپریشن لوٹس جمہوریت کے لیے خطرہ
کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ آپریشن لوٹس کے ذریعے بی جے پی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو توڑتی ہے اور اپوزیشن کی حکومتوں کو گراتی ہے۔ کرناٹک، مدھیہ پردیش، اروناچل پردیش وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اگرچہ بی جے پی ’آپریشن لوٹس‘ کے حوالے سے لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ حالیہ کچھ واقعات کو دیکھیں تو بی جے پی کی تردید بے معنی سی لگتی ہے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کار اور اپوزیشن جماعتیں ’آپریشن لوٹس‘ کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ کو جمہوریت کے لیے خطرناک قرار دیتی ہیں۔
ایسے پس منظر میں کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اہمیت کی حامل ہے۔ ظاہری طور پر اس یاترا کا آغاز اچھا ہوا ہے اور عوام کا ردعمل بھی حوصلہ افزا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی نکتہ چینوں کے رویوں میں بھی ہلکی ہلکی تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور راہل گاندھی اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوششیں بھی چل رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد کے بغیر اپوزیشن 2024ء کی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ لیکن ان جماعتوں میں اتنے اختلافات ہیں کہ آج تک سبھی اپوزیشن جماعتیں متحد نہیں ہو سکی ہیں۔ ایسے میں راہل گاندھی کے علاوہ نتیش کمار، شرد پوار، ممتا بنرجی اور تلنگانہ کے وزیر اعلی کے سی آر میں سے کس کے نام پر اتفاق ہوتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com