منگل, جون 6, 2023
Homeرائےپلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے باوجود مسلم عبادت گاہوں پر تنازعات...

پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 کے باوجود مسلم عبادت گاہوں پر تنازعات کا کیا مطلب؟

عبادت گاہوں پر تنازعات پیدا کرکے مذہبی کشیدگی کا یہ سلسلہ طویل ہوتا جارہا ہے۔ ایودھیا کے بعد اب نشانہ متھرا کی عیدگاہ، گیان واپی بنارس اور جامع مسجد شمسی بدایوں پر ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

بابری مسجد تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے جو بھی فیصلہ کیا، اسے ہر طبقہ نے قبول کر لیا۔ اس امید کے ساتھ کہ اب یہ سلسلہ یہیں ختم ہو جائے گا۔ یہ بھی امید تھی کہ اب ملک کو مزید مذہبی مسائل میں نہیں الجھایا جائے گا، مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خام خیالی تھی۔ کیوں کہ مذہبی کشیدگی کا یہ سلسلہ مزید طویل ہوتا جارہا ہے۔ ایودھیا کی بابری مسجد کے بعد متھرا کی عیدگاہ، بنارس کی گیان واپی مسجد اور بدایوں کی جامع مسجد شمسی جیسی متعدد عبادتگاہیں اب شر پسندوں کے نشانے پر آ گئی ہیں۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

حالت یہ ہے کہ ہر تاریخی مسجد، مقبرہ یا مسلم سلاطین کی یادگاروں کو قدیم مندر بتا کر ہندوؤں کو سونپنے کی بات کی جا رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے تنازعات کھڑے کرکے عدالتوں میں مقدمے کئے جا رہے ہیں۔ افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب تب ہو رہا ہے جب ملک میں ایک ایسا قانون موجود ہے جو 1947ء سے پہلے کی تمام عبادتگاہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جسے ہم ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991ء‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس قانون کا وجود ہی ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نئے نئے تنازعات پر حکمرانوں کی خاموشی شر پسندوں کے ناپاک عزائم کو مزید ہوا دے رہی ہے۔

ایودھیا تنازعہ

اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ایودھیا تنازعہ جس نے ملک کی سمت ہی بدل دی، اس کے حل کے وقت نہ صرف عدلیہ بلکہ مقننہ کو بھی یہ تہیہ کرنا چاہئے تھا کہ اب بس۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے بظاہر ایسی کوشش کی بھی تھی، مگر حکمراں طبقہ اور سیاسی حلقوں سے ایسی کوئی پہل نہیں کی گئی کہ جس سے محسوس ہو کہ اب کوئی دوسری ایودھیا وجود میں نہیں آئے گی۔ 9؍ نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ مسلمانوں کو پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی تھے، جنھیں سبکدوشی کے بعد موجودہ حکومت نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا، انہی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ سنایا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ متفقہ فیصلہ ہے، لیکن عدالت کے کچھ اہم تبصروں نے اس فیصلے کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کے مطابق اس جگہ پر پہلے مندر تھا، لیکن محکمے نے یہ تصدیق نہیں کی کہ یہ مندر گرا کر بابری مسجد تعمیر کی گئی یا نہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں چھ دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو منہدم کرنے کے اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔

پلیسز آف ورشپ ایکٹ

سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ پر اپنے 1045؍ صفحات کے فیصلے میں ’1991ء کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ یعنی عبادت گاہوں کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون 15؍ اگست 1947ء کو عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار میں تبدیلی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ قانون ہر مذہبی طبقے کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ان کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی جائے گی اور ان کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ عبادت گاہوں کا ایکٹ مقننہ کے ذریعہ بنایا گیا ایک انتظام ہے جو عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو ہماری سیکولر اقدار کا ایک لازمی پہلو بناتا ہے۔

پلیسز آف ورشپ ایکٹ لانے کا مقصد

نرسمہا راؤ حکومت نے ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991ء‘ یعنی عبادت گاہوں کا قانون نافذ کیا تھا۔ قانون لانے کا مقصد ایودھیا تحریک کی بڑھتی ہوئی شدت اور جارحانہ روش کو قابو میں کرنا تھا۔ حکومت نے قانون میں یہ شرط رکھی کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے علاوہ ملک کی کسی بھی عبادت گاہ پر دوسرے مذاہب کے لوگوں کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ملک کی آزادی کے دن یعنی 15؍ اگست 1947ء کو کسی بھی مذہبی ڈھانچے یا عبادت گاہ پر، چاہے کسی بھی شکل میں ہو، دوسرے مذاہب کے لوگ دعویٰ نہیں کریں گے۔ ایودھیا کی بابری مسجد کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا، کیونکہ یہ تنازعہ آزادی سے قبل عدالتوں میں زیر التوا تھا۔

اب ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991ء‘ کو ہی نہ صرف غیر موثر کرنے، بلکہ اسے بالکل ہی ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد، متھرا کی عیدگاہ، قطب مینار احاطہ میں واقع مسجد اور اب بدایوں کی تاریخی جامع مسجد شمسی جیسی لا تعداد مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کو ہراساں اور ذہنی طور پر پریشان کیا جارہا ہے، جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔

عبادت گاہوں کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ

انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ 1991ء میں بنائے گئے عبادتگاہوں سے متعلق قانون کا سہارا لے کر ملک کو نئے نئے مسائل میں الجھنے سے بچایا جائے، اس کے بر عکس حکمراں طبقہ کے ذریعہ اس قانون کو ہی کالعدم قرار دینے کی تگ و دو کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ اس معاملہ میں درجن بھر سے زائد درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک عرضی پجاریوں کی انجمن نے ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کے ذریعے دائر کی ہے۔ اس عرضی میں سپریم کورٹ سے 1991ء کے عبادت گاہوں کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ متھرا میں کرشن جنم استھان اور وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر-مسجد کے درمیان تنازعہ طے ہو سکے۔

ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدرا پجاری پروہت مہاسنگھ نے بھی اس ایکٹ کی شق کو چیلنج کیا ہے۔ بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرمنیم سوامی اور دیگر کی عرضیوں میں ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991ء‘ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرکے اسے ختم کئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان عرضیوں پر 11؍ اکتوبر کو سماعت ہوگی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مداخلت کی عرضی اور ایک دیگر عرضی کو بھی سماعت کیلئے منظور کرلیا ہے۔ مخالف فریق نے جمعیۃ علماء ہند کی داخل کردہ عرضی کی سخت مخالفت کی تھی، تاہم عدالت نے اس کو قبول نہیں کیا۔

پلیسز آف ورشپ ایکٹ کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری

بہر حال، ایک ایسا قانون جس کا مقصد کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور 1947ء سے پہلے کی عبادت گاہوں کو جوں کا توں رکھنا تھا۔ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے ان مقاصد کو تسلیم بھی کیا ہے۔ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔ یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔

قانون کی دفعہ 4؍ عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتی ہے۔ یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے گی اور اس قانون کو بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔ ایسے میں اگر موجودہ تنازعات پر خاموشی اختیار کرتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہی ہے؟ اس کے ساتھ ہی پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے باوجود مختلف عدالتوں میں ایک ہی طبقہ کی تاریخی عبادتگاہوں کو متنازعہ بتا کر مقدمات کیوں قائم کئے جا رہے ہیں؟

امید ہے کہ نچلی عدالتیں اس قانون کو ملحوظ نظر رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں گی اور جب سپریم کورٹ اس قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کرے گی تو ملک کے سیکولر ڈھانچے، انصاف کے تقاضوں اور قانون کی بالا دستی کو مد نظر رکھے گی۔

( مضمون نگارانقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

مضمون میں پیش کیے گئے افکار و آراء مضمون نگار کے ذاتی افکار ہیں

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments