پیر, جون 5, 2023
Homeایشیاماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں: اس طرف شہر، ادھر ڈوب رہا تھا...

ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں: اس طرف شہر، ادھر ڈوب رہا تھا سورج

ہم نے اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے میں کوتاہی سے کام لیا تو نتائج ناقابل تصور حد تک ہولناک ہوسکتے ہیں

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

قدرت ہمیں کسی نہ کسی طرح آگاہ کرتی رہتی ہے۔ کبھی زلزلہ تو کبھی طوفان، کبھی شدت کی گرمی تو کبھی ناقابل برداشت سردی، کبھی خشک سالی تو کبھی سیلاب۔ آئے دن دنیا میں کہیں نہ کہیں قدرتی تباہی کے مناظر ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ ہزاروں اور لاکھوں انسان ان قدرتی آفات کے سبب لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ قدرت کے سامنے لاچار انسان بڑی بے بسی کے ساتھ یہ سب دیکھتا رہتا ہے۔ اگرچہ ان قدرتی آفات کے پیچھے انسانوں کے لئے کچھ نہ کچھ سبق ہوتا ہے۔ مگر انسان ہے کہ اتنی تباہی و بربادی اور آگاہی کے باوجود سدھرنے کو تیار نہیں۔

جب کبھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے تو دنیا بھر کے حکمرانوں اور ماہرین کے درمیان گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تبدیلیوں کے نام پر ملاقاتوں کا دور شروع ہو جاتا ہے، لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے ہم سب جانتے ہیں۔ ابھی آپ چین، یورپ اور امریکہ کو ہی دیکھ لیں، وہاں گرمی کی شدت نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔ برطانیہ میں گرمی کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ فرانس جنگل کی آگ سے پریشان ہے تو امریکہ کے کئی شہر شدید گرمی کی زد میں ہیں۔

برطانیہ کا بڑا حصہ خشک سالی کی زد میں

یورپی یونین کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کا کم و بیش نصف حصہ اور برطانیہ کا بڑا حصہ خشک سالی کی زد میں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں یہ پانچواں موقع ہے جب یورپ میں اوسط سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔ اس وقت یورپ کا 10 فیصد حصہ ہائی الرٹ پر ہے۔ ادھر تقریباً پورے پاکستان اور ہندوستان کے کچھ حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ان قدرتی آفات سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ہم جائزہ تو لیتے ہیں، امداد اور راحت رسانی کے کام میں بڑی دل جمعی سے مصروف ہو جاتے ہیں، مگر مجموعی طور پر ہم قدرتی وسائل اور ذخائر کو بچانے کے لیے کیا کررہے ہیں۔

پانی قدرت کی وہ نعمت ہے، جس پر جاندار زندگیوں سے لے کر بے جان اشیاء تک انحصار کرتی ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں پانی ایک بنیادی ضرورت ہے، مگر یہی پانی اگر ہماری تباہی کا سبب بن جائے تو اس بارے میں انسانوں کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی، ذخائر میں کمی، ایک ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ پانی کے مسائل اور آب پاشی وغیرہ کے انسانی نظام کے سبب یہی پانی کبھی رحمت تو کبھی زحمت بن جاتا ہے۔

فطرت سے چھیڑ چھاڑ کو بڑھاوا

ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اسی وقت تک انسان کی نسل اور ان کی آنے والی نسلیں باقی رہیں گی جب تک وہاں کے درخت، پہاڑ، جنگل اور پودے محفوظ ہیں، لیکن بہت زیادہ اور جلد سے جلد کمانے کی جو پیاس گزشتہ کچھ برسوں میں مسلسل بڑھی ہے اس سے متاثر ہوئے لوگوں کے لیے تمام خوبصورت ساحلی اور پہاڑی علاقے سیاحوں کو دنیا بھر سے لا کر سنہرے انڈے دینے والی مرغیوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومتیں بھی سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر فطرت سے چھیڑ چھاڑ کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔

پوری دنیا کے ماحولیات پر منڈلا رہے سنگین خطروں سے انجان یا لاپرواہ سیاحوں کے لیے دور دراز کے ساحلی یا ہمالیائی علاقے، سر سبز و شاداب جنگل صرف سیاحتی مقام بن گئے ہیں۔ ہندوستان کی اگر بات کریں تو وادی کیدارناتھ کی تباہی، ہر سال ممبئی جیسے شہرکا ڈوبنے کی حد تک سیلاب سے جدوجہد کرنا، برسات کے موسم میں ہماچل پردیش، جموں کشمیر، اتراکھنڈ سے لے کر کیرالہ تک تباہناک سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات سامنے ہیں۔ آخر ماحولیات کی اس تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات کا ذمہ دار کون ہے؟

اس سلسلہ میں دنیا بھر میں ہونے والے اجلاس اور گفت و شنید سے ہم سب واقف ہیں۔ اس کی وجوہات اور اسباب بھی بار بار سامنے آتے رہتے ہیں، مگر اصل زندگی میں ہر انسان ایک دوسرے کو، ایک حکومت دوسری حکومت کو، ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہوتے ہیں۔

گوٹیرس پاکستان کا دورہ کریں گے

فی الحال پاکستان میں غیر معمولی سیلاب سے ہونے والی تباہی نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔ مختلف ممالک نے اظہار افسوس اور امدادی سامان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی اہم قدم اٹھایا ہے۔ وہ ذاتی طور پر پاکستان کا دورہ کریں گے۔ گوٹیرس نے پاکستان کے لیے 160 ملین ڈالر کی امداد دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس سال یورپ اور چین میں غیر معمولی گرمی اور پاکستان میں ہونے والے رجحان کو اس تباہی سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہمالیائی گلیشیئرس کے پگھلنے کی وجہ سے پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں اچانک غیر معمولی پانی آ گیا، جس کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا۔

سیلابی صورتحال نے پورے ملک میں تباہی مچا دی

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی ایک انتہائی بحرانی کیفیت اور حالات سے دوچار ہے۔ یہاں پہلے ہی سیاسی اور معاشی حالات انتہائی ناگفتہ تھے کہ مانسون کی شدید بارش کے نتیجے میں سیلابی صورتحال نے پورے ملک میں تباہی مچا دی ہے اور اس وقت پاکستان کے تقریباً تمام ہی صوبے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ اس قدرتی آفت کی سنگینی میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ کئی کروڑ افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہواہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جو مناظر سامنے آرہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ ایک طرف جہاں ایک ہزار سے زیادہ انسان پانی کی موجوں کی نذر ہوگئے، وہیں لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں بھی سیلاب کے پانی سے کیچڑ میں بدل گئی ہیں۔ آشیانوں کی بربادی کے دلدوز وہ مناظر بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جن میں کچے گھر خس و خاشاک کی مانند بہتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کو تقریباً 4 بلین ڈالر کا نقصان

ماضی میں زلزلوں کی وجہ سے عمارتیں تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی رہی ہیں، مگر انہی عمارتوں کا خس و خاشاک کی طرح بہہ جانا شاید سونامی کے دوران بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ عمارتوں کے اِس طرح بہنے سے پاکستان کے سیلاب کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کم و بیش 2 لاکھ مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو تقریباً 4 بلین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔

پاکستان کے مسائل کی طویل فہرست میں ماحولیاتی تبدیلی بنیادی اور سرِ فہرست مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی پرفارمنس انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آب وہوا کا معیار انتہائی خراب ہے، اس کی اہم وجوہات جنگلات کی کٹائی، گاڑیوں کے نقل و حمل سے کاربن کا خارج ہونا، آبادی میں ہونے والا اضافہ، اور فیکٹریوں سے نکلنی والی زہریلی گیسز ہیں جو نہ صرف انسانی زندگی اور صحت کو خطرات لاحق کرتی ہیں، بلکہ قدرتی آفات کا بھی سبب بنتی ہیں۔ پلاسٹک بیگ کا استعمال، کھلے کچرے کے ڈھیر، بے ہنگم تعمیرات، گندے پانی کا بھاؤ، بنجر زمینیں، ذخائر میں کمی، اور غیر ذمہ دارانہ رویہ پاکستان میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کھلا ثبوت ہیں۔

پاکستان بارش اور سیلاب کی زد میں

پاکستان میں ہونے والی اموات میں 23 فیصد حصہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا ہے، جس میں 36 فیصد کم عمر بچے شامل ہیں۔ ان اموات کی وجہ صرف قدرتی آفات نہیں، بلکہ اس کی وجہ بے شمار کوتاہیاں ہیں۔ فی الحال پاکستان بارش اور سیلاب کی زد میں ہے، مگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق وہ ممالک جو پانی کی کمی کا شکار ہیں پاکستان کا شمار اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔

بہر حال قوموں کی زندگی میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں اور جو قومیں ان سے سبق حاصل کرتی ہیں اور قدرت کے اشاروں کو سمجھ لیتی ہیں وہ ترقی و استحکام کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں درپیش چیلنجز کی وسعت اور سنگینی کا مکمل علم اور شعور ہو۔ لہذا ہم نے اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے میں کوتاہی سے کام لیا تو نتائج ناقابل تصور حد تک ہولناک ہوسکتے ہیں۔ بقول شاعر؎

اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments