بدھ, جون 7, 2023
Homeسیاستآزادی کا امرت مہوتسو: 75 ویں جشن آزادیٔ ہند پر ذرا یاد...

آزادی کا امرت مہوتسو: 75 ویں جشن آزادیٔ ہند پر ذرا یاد کرو قربانی—

جب ہم آزادی کی 75 ویں سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں تو ملک کیلئے علماء، دانشوران اور اردو صحافیوں کی قربانیوں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے

ڈاکٹر یامین انصاری

ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے۔ جب ہم اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ کا جشن ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے عنوان سے منا رہے ہیں تو ہمیں جدوجہد آزادی کے ہر نمایاں پہلو کو سامنے رکھنا چاہئے۔ آج جبکہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ جیسے آزادی کا یہ ’امرت مہوتسو‘ صرف ایک طبقہ کا مرہون منت ہے۔ جس طبقہ نے جنگ آزادی میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا، سب سے زیادہ قربانیاں پیش کیں، ملک کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، افسوس آج اسی طبقہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نہ صرف نظر انداز، بلکہ ان کی وطن پرستی اور جذبہ حب الوطنی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ جد و جہد آزادی کے ان پہلوؤں کو بھی سامنے لایا جائے، جن پر عام طور پر جانے انجانے میں گفتگو ہی نہیں کی جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری جد و جہد آزادی کے دوران بلا تفریق و مذہب و ملت لاتعداد لوگوں نے اس میں حصہ لیا، لیکن کئی ایسی اہم شخصیات بھی سامنے آئیں، بالخصوص مسلم علما، دانشوران اور صحافی، جنھوں نے وطن عزیز کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

15 اگست 1947ء کا دن

ہمیں یہ آزادی یونہی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اس کے لیے ہمارے اسلاف کو ایک طویل جد و جہد کرنی پڑی۔ اس جد و جہد کے دوران مختلف تحریکیں چلائی گئیں، جہاد کے فتوے جاری کئے گئے، سیکڑوں لوگ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، ہزاروں لوگوں کو جیل کی کال کوٹھری میں محبوس کر دیا گیا۔ ان میں وہ علماء، دانشور اور اردو صحافی بھی شامل ہیں، جنھوں نے اپنی زندگیوں کو حصول آزادی کے لئے وقف کر دیا۔ بالآخر 15 اگست 1947ء کا دن ایک نئی صبح لے کر آیا، ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزادی ملی۔

یہ ہماری عدم توجہی بھی ہے اور کچھ لوگوں کی تنگ نظری بھی کہ مسلم مجاہدین آزادی کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مورخین کے ایک حلقے نے کچھ حد تک ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند مسلم مجاہدین آزادی کا ذکر کیا ہے، لیکن اور بھی بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے آزادی کی جد و جہد میں کارہائے نمایاں انجام دیے، بد قسمتی سے ان کو نہ تو ہم خود یاد رکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ ان کے کارناموں کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اب تو حالات یہ ہیں کہ جو چند نام لوگوں کی زبانوں پر اب تک ہیں، انہیں بھی پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

زندہ قومیں اپنی تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کرتیں

ہمیں دھیان رکھنا چاہئے کہ زندہ اور بیدار قومیں اپنی تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ بلکہ اپنے اجداد کے کارناموں کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرتی ہیں، ان کی قربانیوں اور ان کے کارناموں کا مرثیہ نہ پڑھ کر ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ لہذا ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے اور ہمارے مورخین، ہمارے صحافیوں، ہمارے دانشوروں کو چاہئے کہ وہ جس حد تک بھی ممکن ہو، اپنے اسلاف کی قربانیوں کو منظر عام پر لائیں اور نئی نسل کو اس سے روشناس کرائیں۔

آج ہماری نئی نسل میں بہت کم تعداد ہوگی جو اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے واقف ہے، یا ان کے کارناموں کو جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے؟ بمشکل تمام وہ دو چار مجاہدین آزادی کے ناموں سے واقف ہوں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اپنے شاندار ماضی سے واقف کرائیں اور اس وطن عزیز کے لئے ہمارے اجداد نے کیا کیا قربانیاں پیش کی ہیں، ان سے باور کرائیں۔ آج کے حالات میں تو اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے اکابرین کی قربانیوں کو بار بار دہرائیں۔ یہی ان اکابرین کے لیے سچا خراج عقیدت ہوگا۔

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز

اگرچہ ہندوستان کو 15 اگست 1947ء کو آزادی ملی، لیکن جدوجہد آزادی کی بنیاد 1857ء سے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی۔ 1857ء کی بغاوت جدید ہندوستانی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے، کیونکہ اسے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی وقت سے مسلم قیادت جد و جہد آزادی میں پیش پیش رہی۔

ہندوستان کی جنگ آزادی میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا تھا، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ایک نئی علامت کے ساتھ سامنے آئے اور دوسروں کے لئے تحریک کا کام کیا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے مجاہدین آزادی نے ملک کی بقا کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور انہی لوگوں کی وجہ سے آج ہم ایک آزاد ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں کئی ایسے واقعات درج ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے لئے مسلمانوں نے کیا کیا ظلم و ستم برداشت کئے اور کیا کیا صعوبتیں برداشت کیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے، لڑنے اور قربانیاں پیش کرنے والوں میں 65 فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ جد و جہد آزادی کا سلسلہ 1857ء سے بھی بہت پہلے سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف پہلی جدوجہد حیدر علی اور ان کے فرزند ٹیپو سلطان نے 1780ء میں ہی شروع کر دی تھی۔ 1780ء اور 1790ء میں ان لوگوں نے برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹیں اور توپ کا مؤثر طور پر استعمال کیا۔

پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن

اسی طرح بیگم حضرت محل ایک خاتون ہوتے ہوئے پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن تھیں، جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857ء کو انگریزوں کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ ادھر علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے عزائم کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔

انھوں نے جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد علماء کے سامنے تقریر کی اور اِستِفتاء پیش کیا۔ جس میں انگریز کے خلاف جہاد کے لیے کہا گیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مفتی صدرالدین خان، مولوی عبد القادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری، سید محمد نذیر حسین، نور جمال، عبد الکریم، سکندر علی، مفتی اکرام الدین، محمد ضیاء الدین، احمد سعید، محمد عنبر خان، محمد کریم اللہ، سعید شاہ نقشبندی، مولوی عبد الغنی، محمد علی، سرفراز علی، سید محبوب علی، محمد حامی الدی، مولوی سعید الدین فریدالدین، سید احمد، الہٰی بخش، محمد انصار علی، حفیظ اللہ خاں، نورالحق، محمد رحمت علی خاں عدالت العالیہ، محمد علی حسین قاضی القضات، سیف الرحمن، محمد ہاشم، سید عبدالحمید، سید محمد وغیرہ نے دستخط کیے۔

علامہ فضل حق خیر آبادی کا جہاد کا فتویٰ

علامہ فضل حق خیر آبادی کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف ایک لہر دوڑ گئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریز حکومت کی چولیں ہل گئیں۔ انگریزوں نے بھی اپنی تدبیریں لڑا کر، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس تحریک کو کچل دیا۔ جنوری 1859ء میں آپ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور کالاپانی کی سزا ہوئی۔ آپ نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور عدالت میں کہا کہ ’’جہاد کا فتویٰ میرا لکھا ہوا ہے اور میں آج بھی اپنے اس فتویٰ پر قائم ہوں‘۔

فضل حق خیر آبادی کو 12 فروری 1861ء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اسی طرح مولوی احمد اللہ شاہ نے ملک میں پہلی جنگ آزادی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1857ء میں علماء کرام کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی، جنھوں نے ملک کے عوام میں جذبہ حریت کو بیدار کیا اور اس تحریک آزادی کی مضبوط بنیاد ڈالی۔ ان میں مولانا فضلِ حق خیرآبادی اور مولانا احمدالله شاہ کے علاوہ مولانا رحمت الله کیرانوی، مولانا سرفراز، مفتی احمد کاکوروی، مفتی مظہر کریم دریابادی، حاجی امدادالله مہاجرمکی، مولانا رشید احمد، مولانا منیر نانوتوی وغیرہ کے نام قابل ذکرہیں۔ (جاری)

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments