بدھ, جون 7, 2023
Homeرائےصدارتی انتخاب میں دروپدی مرمو کی فتح سے اپوزیشن کو ملا ایک...

صدارتی انتخاب میں دروپدی مرمو کی فتح سے اپوزیشن کو ملا ایک اور اہم سبق

صدارتی انتخاب کے نتیجے اور نائب صدر کے انتخاب سے پہلے اپوزیشن میں دراڑ اس بات کا اشارہ ہے کہ 2024ء میں بھی حالات زیادہ تبدیل نہیں ہوں گے

ڈاکٹر یامین انصاری

15 ویں صدر جمہوریہ کیلئے ہونے والے انتخاب میں این ڈی اے کی اُمیدوار دروپدی مرمو نے بازی مار لی۔ ویسے دروپدی مرمو کی کامیابی نہ تو خلاف توقع ہے اور نہ ہی حیران کن۔ انتخاب سے پہلے ہی اشارہ مل گیا تھا کہ این ڈی اے کی امیدوار اپوزیشن کے امیدوار کو بہت آسانی سے شکست دے دیں گی۔ انتخابی نتائج سے یہ ثابت بھی ہو گیا۔ یہ انتخاب سابقہ صدارتی انتخاب سے زیادہ موضوع بحث رہا۔

در اصل اپوزیشن جماعتیں 2024ء کے عام انتخابات سے پہلے اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر اس شکست سے ان کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اپوزیشن کے اتحاد پر اسی وقت سوال اٹھنے لگے تھے جب بی جے ڈی، جے ڈی ایس، جے ایم ایم، وائی ایس آر کانگریس جیسی کئی غیر این ڈی اے پارٹیاں دروپدی مرمو کی حمایت میں سامنے آگئیں۔ اس کے ساتھ ہی باقی اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کے ذریعہ کراس ووٹنگ نے بھی اپوزیشن کے اتحاد پر سوالیہ نشان لگا دئے۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اپنا گھر ہی محفوظ نہیں ہے۔ کون کب مخالف خیمہ میں چلا جائے، کہا نہیں جا سکتا۔

صدارتی انتخاب کے نتیجے اور نائب صدر کے انتخاب سے پہلے اپوزیشن کے خیمہ میں پیدا ہونے والی دراڑ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ2024ء کے لیے اپوزیشن کے اتحاد کا راستہ بہت آسان نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سامنے جہاں اپنی محدود ہوتی سیاسی زمین کو بچانے کا چیلنج ہے، وہیں علاقائی جماعتوں کو کس طرح ساتھ لے کر چلا جائے، یہ اس سے بڑا چیلنج ہے۔ علاقائی جماعتوں کو لگتا ہے کہ جہاں وہ مضبوط ہیں، وہاں ان کی حصہ داری بھی زیادہ ہونی چاہئے۔ جبکہ کانگریس ایک قومی پارٹی کی حیثیت سے اپنا حق زیادہ سمجھتی ہے۔

صدر جمہوریہ اور نائب صدر کے انتخاب سے پیغام

صدر جمہوریہ اور نائب صدر کے انتخاب سے یہ پیغام مل گیا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کا سخت امتحان ہونے والا ہے۔ اگر صدر جمہوریہ کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو این ڈی اے کی امیدوار دروپدی مرمو کو ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کے کل 2824؍ ووٹ ملے، جن کی ویلیو 6؍ لاکھ 75؍ ہزار 803؍ ہے۔ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار یشونت سنہا کو 1877؍ ووٹ ملے، جن کی ویلیو 3؍ لاکھ 80؍ ہزار 177؍ ہے۔ مرمو کل ووٹوں کا 64 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ جبکہ یشونت سنہا کو کل 36؍ فیصد ووٹ ہی مل سکے۔

اس دوران کراس ووٹنگ نے بھی این ڈی اے امیدوار کی جیت کے فرق کو مزید بڑھا دیا، جس سے اپوزیشن کی کمرٹوٹ گئی۔ 18؍ ریاستوں کے 143؍ ایم پی اور ایم ایل ایز نے کراس ووٹنگ کی۔ ان میں 126؍ اراکین اسمبلی اور 17؍ اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ در اصل بی جے پی کے قبائلی کارڈ نے اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کئی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان چاہتے ہوئے بھی دروپدی مرمو کی مخالفت نہیں کر سکے اور اپوزیشن جماعتیں چاروں شانے چت ہو گئیں۔دروپدی مرمو کا چہرہ این ڈی اے کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔

یہ صدراتی انتخاب اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا کیوں کہ اس سے یہ پیغام مل گیا ہے کہ صدارتی انتخاب ووٹ بینک بنانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ آسام میں سب سے زیادہ 22؍ اراکین اسمبلی نے کراس ووٹنگ کی۔ مدھیہ پردیش دوسرے نمبر پر تھا، جہاں کانگریس کے پاس کافی تعداد میں قبائلی ایم ایل اے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں 19؍ اراکین اسمبلی نے مرمو کے حق میں کراس ووٹ دیا۔

کانگریس اور این سی پی میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے

مہاراشٹر میں شیو سینا کے دونوں گروپ پہلے ہی مرمو کے حق میں تھے، لیکن وہاں بھی انہیں ان کے حق میں 16؍ اضافی ووٹ ملے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس اور این سی پی میں بھی مستقبل میں شیو سینا کی طرح انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ یشونت سنہا کی آبائی ریاست جھارکھنڈ میں کارکردگی سب سے مایوس کن رہی۔ وہ جھارکھنڈ میں کل 81؍ ووٹوں میں سے صرف 9؍ ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ دوسری طرف مرمو کو ان کی آبائی ریاست اوڈیشہ میں کل 147؍ میں سے 137؍ ووٹ ملے۔ گجرات میں اسمبلی انتخابات سے پہلے کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔

گجرات میں اس سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن کانگریس کے 10؍ اراکین اسمبلی نے بھی مرمو کے حق میں کراس ووٹ کیا۔ یہ کراس ووٹنگ کانگریس کے لیے نیک شگون نہیں ہے، جس نے 2017ء کے گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو سخت ٹکر دی تھی۔ اس وقت ملک میں 776؍ منتخب اراکین پارلیمنٹ اور 4033؍ اراکین اسمبلی ہیں۔ ان میں سے 3991؍ اراکین اسمبلی اور 763؍ اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالے، جن میں سے 53؍ ووٹ غلط نکلے۔ ان میں 15؍ ایم پی اور 38؍ اراکین اسمبلی شامل ہیں۔

سنہا نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی

مدھیہ پردیش اور پنجاب میں 5-5؍ اراکین اسمبلی کے ووٹ غلط قرار دئے گئے۔ کرناٹک، مہاراشٹر، مغربی بنگال اور دہلی میں چار چار ووٹ، یوپی میں 3، بہار میں دو اور ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، میگھالیہ، تمل ناڈو، تلنگانہ، اتراکھنڈ اور پڈوچیری میں ایک ایک ووٹ غلط تھا۔ 2017ء کے صدارتی انتخابات میں 77؍ ووٹ غلط قرار دئے گئے تھے۔ حالات اپنے حق میں نہ دیکھ کر یشونت سنہا نے ایم پی اور ایم ایل اے سے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں سیاسی جماعتوں کا وہپ نافذ نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کوئی رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے موقف الگ کسی دوسرے کو ووٹ کرتا ہے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اس لحاظ سے رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کو اپنے ضمیر کی آواز سننا بہت آسان ہے۔ لیکن یہاں تو یشونت سنہا شاید اپنی حامی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کے ضمیر کو سمجھنے میں ہی ناکام رہے۔

صدر جمہوریہ کے انتخاب کے بعد نائب صدر کے انتخاب میں بھی اپوزیشن کے اتحاد میں بڑی دراڑ پڑ گئی۔ نائب صدر کے امیدوار کے انتخاب میں مشورہ نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ترنمول کانگریس نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ این ڈی اے نے مغربی بنگال کے سابق گورنر جگدیپ دھنکھڑ کو نائب صدر کے انتخاب کے لیے اپنے امیدوار کے طور پر کھڑا کیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے راجستھان کی سابق گورنر مارگریٹ الوا کو میدان میں اتارا ہے۔

نائب صدر کے انتخاب میں ووٹنگ سے گریز کرنے کا ٹی ایم سی کا فیصلہ مایوس کن

مارگریٹ الوا نے بھی ترنمول کانگریس کے ذریعہ انتخابات میں ووٹنگ نہ کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ ترنمول کانگریس کے فیصلہ پر کہا کہ ’نائب صدر کا انتخاب الزام تراشی، غصہ یا انا کے اظہار کا وقت نہیں ہے۔ نائب صدر کے انتخاب میں ووٹنگ سے گریز کرنے کا ٹی ایم سی کا فیصلہ مایوس کن ہے۔ یہ ہمت، قیادت اور اتحاد کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے، ممتا بنرجی، جو ہمت کا مظہر ہیں وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔‘

بہر حال، اب جبکہ قبائلی کارڈ کھیل کر بی جے پی یا حکمراں این ڈی اے نے بازی اپنے حق میں کر لی ہے تو دروپدی مرمو کی یہ کامیابی محض ووٹ حاصل کرنے کا ہتھکنڈہ بن کر نہ رہ جائے۔ سیاسی بساط پر ہی سہی، ملک کو دروپدی مرمو کی شکل میں ایک ایسا صدر جمہوریہ ملا ہے، جس کا تعلق قبائلی برادری سے ہے۔ ہمارے ملک میں قبائلی آبادی کو آزادی کے بعد سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس اعتبار سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب قبائلی آبادی کے مسائل دور کرنے میں آسانی ہوگی؟ حالانکہ ملک کی سیاست کا اب تک کا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ کسی برادری یا فرقے کو نمائندگی دینے سے اُس برادری یا فرقے کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ چاہے دلتوں کا معاملہ ہو، اقلیتوں کی بات ہو یا پھر قبائلی آبادی کا تعلق، کیوں کہ اس سے پہلے دلت اور اس سے بھی پہلے اقلیتی فرقے سے بھی صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز رہے ہیں، مگر اس سے ان فرقوں یا برادریوں کی طرز زندگی یا ان کے مسائل میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں آیا۔ اس لئے اب بھی بہت زیادہ امیدیں نہیں کی جا سکتیں۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments