پیر, جون 5, 2023
Homeسیاستپارلیمانی بحث میں غیر پارلیمانی الفاظ کی بندش: ‘زباں بندی’ کے موسم...

پارلیمانی بحث میں غیر پارلیمانی الفاظ کی بندش: ‘زباں بندی’ کے موسم میں گلی کوچوں کی مت پوچھو

پارلیمانی بحث میں الفاظ کی بندش اور پارلیمنٹ احاطہ میں احتجاج پر پابندی کو کسی صحت مند جمہوریت کی علامت تو نہیں کہا جا سکتا

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

‘خیالات کا آزادانہ تبادلہ’ بغیر کسی روک ٹوک کے معلومات کی ترسیل، مختلف نقطہ نظر کو نشر کرنا، بحث کرنا، اپنے خیالات کی تشکیل اور ان کا اظہار کرنا، ایک آزاد معاشرے کے بنیادی اشارئیے ہیں۔ یہ آزادی ہی لوگوں کے لیے ممکن بناتی ہے کہ وہ اپنے خیالات اور آراء کو مناسب بنیادوں پر مرتب کرکے ایک آزاد معاشرے میں اپنے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کو باخبر طریقے سے استعمال کرسکیں۔ ہندوستانی جمہوریت میں پارٹیاں اپنی تنقید کے لیے تیار رہتی ہیں۔سیاسی جماعتیں عوام کے ذریعہ اپنی پالیسیوں کی تنقید کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہیں۔‘

دہلی کی ایک عدالت کا یہ تبصرہ ٹھیک اس وقت آیا ہے جب پارلیمنٹ میں کچھ الفاظ کے استعمال اور پارلیمنٹ احاطہ میں احتجاج پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عدالت نے گرچہ یہ تبصرہ صحافی محمد زبیر کو ضمانت دیئے جاتے وقت کیا، مگر اسے ’جمہوریت کے مندر‘ میں ’زباں بندی‘ کی کوشش کے ضمن میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صحت مند جمہوریت میں بحث و مباحثے کے وقت شائستگی کا مظاہرہ اور بہتر الفاظ کا استعمال ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس بہانے کہیں اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی و سماجی حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے۔

عدالتوں کے تبصروں سے بھی حقوق انسانی کی پامالی کے الزامات کی تصدیق

پچھلے کچھ برسوں کے دوران حکومت پر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن سے لے کر حقوق انسانی کی پامالی تک کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ سول سوسائٹی، مختلف حلقوں اور مختلف عدالتوں کے تبصروں سے بھی کئی بار ان الزامات کی تصدیق ہوتی ہے۔

خود چیف جسٹس آف انڈیا نے حال ہی میں کہا کہ ’ہم اس سال آزادی کے 75؍ سال کا جشن منا رہے ہیں۔ جیسا کہ ہماری جمہوریہ 72؍ سال کی ہو گئی ہے، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر ادارے نے آئین کے ذریعے تفویض کردہ کرداروں اور ذمہ داریوں کی پوری طرح تعریف کرنا نہیں سیکھا ہے۔ ہندوستان میں سیاسی جماعتوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ عدلیہ کو ان کے اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے۔ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے جو صرف آئین کے تئیں جوابدہ ہے نہ کہ کسی سیاسی پارٹی یا نظریے کے۔ سیاسی جماعتوں کو لگتا ہے کہ عدلیہ کو سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ‘قانون کے رکھوالوں کے ان تبصروں کو بھی حکومت اور دیگر اداروں کو ’زباں بندی‘ اور احتجاج سے روکنے کی کوشش سے پہلے ذہن میں رکھنا چاہئے۔

‘قانون کے رکھوالوں کے ان تبصروں کو بھی حکومت اور دیگر اداروں کو ’زباں بندی‘ اور احتجاج سے روکنے کی کوشش سے پہلے ذہن میں رکھنا چاہئے‘

الفاظ کے استعمال کے حوالہ سے نئی ہدایات

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں الفاظ کے استعمال کے حوالہ سے نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جس سے اپوزیشن پارٹیاں تو سخت برہم ہیں ہی، مختلف حلقوں میں بھی ان فیصلوں پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ پارلیمنٹ احاطہ میں دھرنا اور مظاہرے پر تو پابندی لگائی ہی گئی ہے، ساتھ ہی ایوان میں بحث کے دوران ’غیر پارلیمانی‘ الفاظ کی باقاعدہ ایک فہرست جاری کی گئی ہے، جن میں بہت سے ایسے الفاظ شامل ہیں، جو غیر پارلیمانی یا غیر شائستگی کے زمرے میں نہیں آتے۔ کہا جارہا ہے کہ ایسا مقننہ کے ’وقار کے تحفظ‘ کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ فہرست پہلے سے موجود ہے اور اگر اس فہرست میں کچھ اور الفاظ بھی شامل ہوں گے تو یہ کوئی غیر روایتی اعلان نہیں ہے۔

اس کے باوجود اس معاملے پر بحث اس لئے ہو رہی ہے کیوںکہ ایسے الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے، جن کے ذریعے اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت پر مسلسل حملے کر رہی ہیں۔ اسی لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟ خاص طور پر ایسے الفاظ جو نہ غیر شائستہ ہیں، نہ ہی مقننہ یا پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں، پھر بھی انہیں غیر پارلیمانی قرار دیا گیا ہے، آخر کیوں؟ پارلیمانی بحث میں حصہ لیتے ہوئے اب اراکین، جملہ جیوی، شکونی، جے چند، لالی پاپ، چنڈال چوکڑی، گل کھلائے، پٹھو اور کورونا اسپریڈر جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ ایسے الفاظ کا استعمال غیر اخلاقی قرار دیا جائے گا اور انہیں ایوان کی کارروائی سے حذف کر دیا جائے گا۔

غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست

پارلیمنٹ کے اجلاس سے ٹھیک پہلے لوک سبھا سیکریٹریٹ نے ایک کتابچہ جاری کیا ہے جس میں وہ الفاظ شامل کئے گئے ہیں جو غیر پارلیمانی قرار دئیے گئے ہیں۔ اس کتابچے کے مطابق لوک سبھا سیکریٹریٹ نے نکما، ڈھنڈورہ پیٹنا اور بہری سرکار، خونریزی، خونیں، خیانت، شرمندہ، چمچا، چمچا گیری، چیلا، بچکانہ پن، کرپٹ، بزدل، مجرم، گھڑیالی آنسو، توہین، گدھا، ڈراما، غنڈہ گردی، منافقت، نا اہل، گمراہ کن، جھوٹ، انارکسٹ، غدر، گرگٹ، غنڈے، کالا دن، کالا بازاری، خرید و فروخت، فساد، دلال، دادا گیری، بیچارہ، باب کٹ، لالی پاپ اور بے حس جیسے الفاظ کو بھی غیر پارلیمانی زبان میں شامل کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بدسلوکی، فریب دہی، ڈراما اور نااہل جیسے الفاظ کو بھی غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ملک کے مختلف قانون ساز اداروں کے ساتھ ساتھ دولت مشترکہ کی پارلیمانوں میں اسپیکرز کی طرف سے وقتاً فوقتاً کچھ الفاظ اور تاثرات کو غیر پارلیمانی قرار دیا جاتا ہے اور لوک سبھا سیکریٹریٹ نے بھی یہی کیا ہے اور انہیں مستقبل میں فوری حوالہ کے لئے مرتب کیا گیا ہے۔ اس تعلق سے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ کسی لفظ پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین یا لوک سبھا کے اسپیکر اجلاس کے دوران ایوان میں بولے گئے الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں اور الفاظ کے غیر پارلیمانی ہونے پر اسے کارروائی سے حذف کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ یہی کام اس وقت کیا گیا ہے، لیکن اس پر بلاوجہ ہنگامہ کیا جارہا ہے۔ سر دست لوک سبھا اسپیکر کی یہ وضاحت تسلی بخش نہیں ہے۔

پارلیمنٹ احاطہ میں دھرنے اور احتجاج پر بھی پابندی

اپوزیشن پر قدغن لگانے کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا، پارلیمنٹ میں بولے جانے والے متعدد الفاظ پر پابندی عائد کرنے کے بعد حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں دھرنے اور احتجاج پر بھی پابندی عائد کر دی۔ راجیہ سبھا سیکریٹریٹ سے جاری ایک سرکولر میں کہا گیا کہ اب پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں مظاہرے، احتجاج، دھرنا یا مذہبی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جا سکتا۔ کہا گیا ہے کہ اراکین، پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے کو کسی بھی مظاہرے، دھرنے، ہڑتال، انشن یا کسی مذہبی تقریب کے لئے استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اگرچہ اپوزیشن جماعتیں عام طور پر پارلیمنٹ احاطے میں مرکزی دروازے کے قریب واقع مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے اکثر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ کئی ممبران یہاں بیٹھ کر انشن بھی کرتے ہیں۔ یہ اپوزیشن کے علامتی احتجاج کے لئے مختص جگہ قرار دی جاتی ہے، لیکن اب اس پر بھی پابندی عائد کرنے کی بات ہو رہی ہے جس سے اپوزیشن پارٹیاں خاص طور پر برہم ہیں۔

اپوزیشن کی ناراضگی

اپوزیشن کی ناراضگی جائز بھی ہے، کیوں کہ اس طرح کی پابندیاں کسی بھی صحت مند جمہوریت کے لئے نیک علامت نہیں ہے۔ اس موقع پر ہمیں عدالت کے اس تبصرے کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ ’سیاسی جماعتیں عوام کے ذریعہ اپنی پالیسیوں کی تنقید کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہیں۔ جمہوریت کھلی بحث کے ذریعے لوگوں کی حکومت ہے، جب تک لوگ اپنے خیالات کا اظہار نہ کر پائیں جمہوریت نہ تو چل سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتی ہے۔‘

بہر حال، ہمیں ان اقدامات سے پہلے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کا وقار بحال رکھنے میں محض الفاظ کی بندش کافی ہے؟ کیا پارلیمانی بحث کے معیار اور ایوان کا وقار بنائے رکھنے میں ہمارے عوامی نمائندوں کا اخلاق و کردار مناسب معلوم ہوتا ہے؟ عوامی جلسوں سے لے کر پارلیمنٹ کی بحث تک ملک کے بڑے سے بڑے سیاستداں کس زبان کا استعمال کرتے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

پارلیمنٹ کے اندر جن الفاظ پر بندش ہے، ان کو باہر بھی غیر پارلیمانی قرار دیا جائے

اگر پارلیمنٹ میں صرف مذکورہ الفاظ کے استعمال پر پابندی ہو سکتی ہے تو کیا انہی سیاستدانوں کو ان الفاظ پر عمل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک رکن پارلیمنٹ کیسے کسی فرقہ کو نشانہ بناتے ہوئے ’گولی مارو۔۔۔‘ کے نعرے لگوا سکتا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر جن الفاظ پر بندش ہے، ان کو باہر بھی غیر پارلیمانی قرار دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم ایک صحت مند جمہوریت اور مثالی معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ ’زباں بندی‘ کی اس کوشش کو یہی کہا جائے گا کہ اب ہم جمہوریت سے آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments