جہانگیر پوری معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے انہدامی کارروائی پر اسٹے دیئے جانے کے باوجود یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں انہدامی کارروائی کی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا
نئی دہلی: یوپی کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی املاک کی بلڈوز کے ذریعہ غیر قانونی انہدامی کارروائی کے خلاف صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر پوری معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے انہدامی کارروائی پر اسٹے دیئے جانے کے باوجود یوپی اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں انہدامی کارروائی کی گئی جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔
جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے اعتراض پر کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس معاملے کوکیوں اٹھایا گیا کے جواب میں سی یو سنگھ نے عدالت کو یہ باتیں بتائیں۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جن لوگوں کے مکانات منہدم ہوئے ہیں وہ ہائی کورٹ سے رجوع ہوچکے ہیں لہذا سپریم کورٹ کو اس معاملے کو ہائی کورٹ کو دیکھنے دینا چاہئے۔ سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ بلڈوزر کارروائی کا اعلان میونسپل حکام نہیں بلکہ پولیس نے کیا، ملک میں قانون کی حکمرانی چلے گی یا پولس کی حکمرانی؟ سی یو سنگھ نے مزید کہا کہ ملک میں جہاں بھی فسادات رو نما ہوئے وہاں مخصوص فرقے کے لوگوں کی املاک پر غیر قانونی بلڈوزر چلایا گیا۔
دہلی میں سیکڑوں غیرقانونی فارم ہاؤس پر انہدامی کارروائی کیوں نہیں؟
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اتر پردیش حکومت نے اپنے حلف نامہ میں بتایا ہے کہ انہوں نے تین لوگوں کو نوٹس جاری کیا تھا لیکن ہم نے درجنوں مثالیں پیش کی ہیں جس میں پولیس افسران نے اعلان کیا تھا کہ فساد کے ملزمین کی املاک پر بلڈوزر کارروائی انجام دی جائے گی۔ دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایا کہ ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ورنہ کیا بات ہے دہلی کے سینک فارم کو جو غیر قانونی ہے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پچھلے پچاس بر سوں میں۔ دہلی میں سیکڑوں غیرقانونی فارم ہاؤس تعمیر کئے گئے ہیں انہیں کیوں منہدم نہیں کیا جاتا؟
اترپردیش حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے نے عدالت کو بتایا جن لوگوں کے مکانات منہدم کئے گئے ہیں انہیں نوٹس دیا گیا تھا اور پولیس اور سیاسی لوگوں کے بیانات جو اخبارات کی زینت بنے ہیں انہیں زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہئے۔ فریقین کی بحث کے بعد جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس نرسہما نے فریقین کو حکم دیا کہ وہ آٹھ اگست تک اس مقدمہ سے متعلق دستاویزات عدالت میں داخل کریں، دس اگست کو عدالت اس معاملے کی حتمی سماعت کرے گی۔ دوران سماعت جسٹس گوئی نے مزید کہا کہ قانون کی پاسداری کرنا ضروری ہے لیکن اگر میونسپل قانون کے مطابق کوئی عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے تو کیا عدالت اس کے انہدامی کارروائی پر روک لگا سکتی ہے؟
میونسپل کمشنر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر نوٹس کے کارروائی کرسکتا ہے؟
واضح رہے کہ گذشتہ شب اتر پردیش حکومت نے جمعیۃ علماء ہند کے جوابی حلف نامہ کے جواب میں تازہ حلف نامہ داخل کیا جس میں تحریر ہے کہ میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی دفعہ 296 کے تحت میونسپل کمشنر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر نوٹس کے کارروائی کرسکتا ہے۔ حالانکہ پہلے کہ حلف نامہ میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا بلکہ مسلسل یہ بات کہی گئی کہ نوٹس دینے کے بعد ہی انہدامی کارروائی انجام دی گئی۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دستاویزات اور فوٹوز کے ذریعہ عدالت کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ بغیر نوٹس کے انہدامی کارروائی انجام دی گئی۔
آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ، سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر پیش ہوئے۔