پیر, مارچ 27, 2023
Homeرائےنفرت، اشتعال انگیزی اور فرقہ واریت کے خلاف بلا امتیاز سختی کا...

نفرت، اشتعال انگیزی اور فرقہ واریت کے خلاف بلا امتیاز سختی کا مظاہرہ ناگزیر

نفرت، اشتعال انگیزی اور فرقہ واریت کے خلاف سختی کا مظاہرہ ضروری ہے، مگر اس میں امتیاز ی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ قانون کی نظر میں سب یکساں

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

’یہ برسوں پہلے 1975ء کی بات ہے۔ جون کا ہی وقت تھا جب ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اس میں ملک کے شہریوں سے تمام حقوق چھین لیے گئے تھے۔ ان حقوق میں سے ایک ’حق زندگی اور ذاتی آزادی‘ کا حق بھی تھا، جو آئین کی دفعہ 21؍ کے تحت تمام ہندوستانیوں کو دیا گیا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی جمہوریت کو کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ملک کی عدالتیں، ہر آئینی ادارہ، پریس، سب کنٹرول میں تھے۔ سنسرشپ کا یہ حال تھا کہ منظوری کے بغیر کوئی چیز چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔

ایمرجنسی کے حالات

مجھے یاد ہے جب مشہور گلوکار کشور کمار نے حکومت کی تعریف کرنے سے انکار کیا تو ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ریڈیو پر ان کی انٹری ہٹا دی گئی۔ لیکن بہت سی کوششوں، ہزاروں گرفتاریوں اور لاکھوں لوگوں پر مظالم کے بعد بھی ہندوستانی عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا، بالکل نہیں ہوا۔ ہندوستان کے لوگوں کے لیے جمہوریت کی جو قدریں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جمہوری جذبہ جو ہماری رگوں میں ہے، آخرکار اس کی فتح ہوئی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے جمہوری طریقے سے ایمرجنسی ہٹاکر جمہوریت قائم کی۔ آمرانہ ذہنیت، آمرانہ رجحان کو جمہوری طریقے سے شکست دینے کی ایسی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔‘‘ وزیراعظم نریندر مودی نے چند روز پہلے کچھ اس انداز میں ایمرجنسی کے حالات کو ملک کے عوام سے واقف کروایا۔

آئین، جمہوریت، آزادی، مساوات، بنیادی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی جیسے الفاظ یقیناً ایک قوم کو مضبوط بنانے کا اہم ہتھیار ہوتے ہیں۔ ان امور کی پاسداری سے ہمارا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے، وہیں ان پر پہرہ بٹھا دیا جائے تو ملک اور قوم کے دامن پر ایسا دھبہ لگتا ہے، جسے صاف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے 47؍ سال پہلے اعلانیہ طور پر ملک میں جب ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، اس کی یادیں ماند نہیں پڑی ہیں۔

غیر اعلانیہ ایمرجنسی

لیکن جب وزیر اعظم مودی برسوں پہلے ہندوستان کی جمہوریت پر لگے اس بد نما داغ کی یاد دلاتے ہیں تو آج کے حالات بھی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جسے لوگ ’غیر اعلانیہ ایمرجنسی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ مودی نے 25؍ جون 1975ء کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملک کی عدالتیں، ہر آئینی ادارہ، پریس، سب کنٹرول میں تھے۔‘ اتفاق دیکھئے کہ آج ان کی حکومت پر بھی یہی الزام لگ رہے ہیں۔ میڈیا کے ایک بڑے حلقے کے بارے میں ان کالموں میں بارہا لکھا جا چکا ہے۔ عدلیہ اور آئینی اداروں کے موجودہ رویوں پر بھی مختلف حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کے کردار کو تو خود عدالتوں نے نہ جانے کتنی بار آئینہ دکھایا ہے۔ چاہے وہ فسادات کا معاملہ ہو، احتجاج اور مظاہروں کے بعد گرفتاریوں کا معاملہ ہو یا پھر سماج کے ایک طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک ہو، پولیس نے بار بار اپنے عمل سے عوام اور بالخصوص اقلیتی فرقہ کے اعتماد کو متزلزل کیا ہے۔

نپور شرما کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرے

گستاخ رسول نپور شرما کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ تبصرے نے مختلف سوالات کو جنم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والی بی جے پی کی سابق قومی ترجمان نپور شرما کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس خاتون کی بدزبانی نے پورے ملک میں آگ بھڑکا دی ہے۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لئے ذمہ دار صرف نپور شرما ہے۔ ہم نے اس ٹی وی بحث کو دیکھا ہے کہ انہیں کس طرح اکسایا گیا، لیکن جس طرح انہوں نے یہ سب کہا اور بعد میں کہا کہ وہ ایک وکیل ہیں، یہ شرمناک ہے۔ انہیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے۔‘

سماعت کے دوران نپور شرما کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ انہیں دھمکیوں کا سامنا ہے۔ عدالت نے اس پر کہا ’انہیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یا وہ سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہیں؟ انہوں نے جس طرح سے پورے ملک میں جذبات بھڑکائے ہیں۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار صرف اکیلی یہ خاتون ہے۔‘

اسی کے ساتھ عدالت عظمیٰ نے اس پہلو کی جانب بھی اشارہ کیا کہ جس میں پولیس یا انتظامیہ قانون کی عمل آوری کے نام پر دوہرا رویہ اختیار کرتی ہے۔ اس کے لئے عدالت نے براہ راست دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ ’جب آپ دوسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہیں تو انہیں فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے، لیکن جب یہ آپ کے خلاف ہو تو کسی کو آپ کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں ہوتی۔

کچھ سوالات حکومت سے

واضح رہے کہ 17؍ جون کو ممبئی پولیس کی ایک ٹیم نپور شرما سے پوچھ گچھ کے لیے دہلی آئی تھی، لیکن مہاراشٹر پولیس کو دہلی پولیس سے کوئی تعاون نہیں ملا۔ بالآخر مہاراشٹر پولیس پانچ روز کی تگ ودو کے بعد یہاں سے لوٹ گئی تھی۔ وہیں کولکاتہ پولیس نے بھی نپور شرما کو کئی سمن جاری کئے ہیں، لیکن دہلی پولیس سے سمن کی تعمیل میں کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔

اب اگر سپریم کورٹ کے تبصرے پر حکومت، انتظامیہ اور پولیس سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ پورے ملک کو خطرے میں ڈالنے والی نپور شرما کو کب گرفتار کیا جائے گا؟ دوسرا یہ کہ نپور شرما کے لیے خصوصی سیکورٹی انتظامات کرنے والی دہلی پولیس کیا اب حرکت میں آئے گی؟ اس کے علاوہ نپور شرما کب ٹی وی پر آئے گی اور پھر غیر مشروط معافی مانگے گی؟ اور جس ٹی وی چینل پر نپور نے نفرت انگیز بیان دیا اس کے خلاف کب کارروائی ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سپریم کورٹ کے تبصرے کے بعد انصاف پسند حلقوں کی جانب سے اٹھا جا رہے ہیں۔

کچھ سوالات عدلیہ سے

کچھ سوالات عدلیہ سے بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر سپریم کورٹ کو واقعی لگتا ہے کہ نپور شرما نے اشتعال انگیز اور نا قابل معافی جرم کیا ہے تو گرفتاری کا حکم کیوں نہیں دیا؟سپریم کورٹ کے اس تبصرے کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیوں کہ سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد بھی تا دم تحریر نپور شرما کو گرفتار نہیں کیا گیا، مگر مشہور فیکٹ چیکر اور صحافی محمد زبیر کی گرفتاری اور پھر اسے ضمانت نہ ملے، اس کے لئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا میدان میں ہیں۔ حکومت زبیر پر شکنجہ کسنے کے لیے عدالت میں پورا زور لگا رہی ہے، اس کی ضمانت عرضیاں خارج ہو رہی ہیں، جسے ایک فلمی سین کے ساتھ چار سال پرانے ٹویٹ پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان سوالات کے جوابات بھلے ہی ابھی نہ ملیں، مگر پورے ملک میں آئین کی بالادستی قائم رہنے یا نہ رہنے پر بحث و مباحثہ ضرور ہوگا۔

عوام میں اعتماد بحال کرنا آئینی اور سرکاری اداروں کی ذمہ داری

بہر حال، آئینی اور سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف پسند عوام میں اعتماد بحال کریں۔ قانون کی نظر میں اگر زبیر نے اشتعال پھیلایا اور دو فرقوں کے مابین منافرت کو ہوا دی تو یقیناً اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، مگر اس کے ساتھ ہی قانون کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسی کارروائی ان لوگوں کے خلاف بھی ہو رہی ہے، جو کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی بات کرتے ہیں، ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں، مقدس مذہبی شخصیات کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو کیمروں کے سامنے خونریزی کا حلف دلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مذہبی لبادہ اوڑھ کر ادے پور جیسے واقعات کو انجام دینے والے بھی سزا کے مستحق ہیں۔

عدلیہ ہی نہیں، حکومت، انتظامیہ اور پولیس کو بھی ملک میں نفرت کی اس چنگاری کو آگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے عناصر کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی جو دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں، سماج میں منافرت اور اشتعال پیدا کریں۔ نہ تو کوئی قانون اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

( مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

اس مضمون میں بیان کئے گئے افکار و آراء مضمون نگار کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ہمس لائیو کی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہوں۔

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments