مہاتما گاندھی نے وزیر اعظم کا عہدہ مسلمانوں کو اور صدر کا عہدہ ہندوؤں کو دینے کی تجویز پیش کی تھی لیکن نہرو اس پر راضی نہیں ہوئے
کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی مسلمان دل سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ ملک تقسیم ہو، لیکن جناح اور انگریزوں کی سازش کی وجہ سے ملک کی تقسیم ہوئی۔ تاہم محمد علی جناح یا مسلم لیگ ہی محض وہ عناصر نہیں تھے جو ملک کی تقسیم چاہتے تھے، بلکہ بعض دیگر ایسے عناصر بھی تھے جو چاہتے تھے کہ ملک کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا جائے۔
اسی لیے ان عناصر نے ملک کی تقسیم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب مہاتما گاندھی پوری کوشش کر رہے تھے کہ ملک تقسیم نہ ہو، انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو یہ تجویز بھی دی تھی کہ وزیر اعظم کا عہدہ مسلمانوں کو اور صدر کا عہدہ ہندوؤں کو دیا جائے، لیکن نہرو اور ان کے ساتھی اس پر متفق نہیں تھے۔
تقسیم ہند کا تنازعہ
بہر حال ملک کی تقدیر میں جو لکھا تھا وہی ہوا اور ملک بٹ گیا۔ کئی کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس تقسیم کی وجہ سے پھوٹنے والے فسادات میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
تقسیم کے اس زخم کے باوجود ملک نے 90 سال بعد 15 اگست 1947 کی صبح آزادی کی پہلی کرن دیکھی اور پورے ملک نے آزادی کا جشن منانا شروع کر دیا لیکن ملک کی آزادی کا جشن اس وقت مدھم پڑ گیا جب 30 جنوری 1948 کو ناتھو رام گوڈسے نے دہلی کے برلا مندر میں گاندھی جی کو گولی مار کر ان کا قتل کر دیا۔ گوڈسے کی اس بزدلانہ حرکت کے بعد ملک میں فرقہ پرستی کا جنون تھم سا گیا اور پورا ملک گاندھی کے قتل کے سوگ میں ڈوب گیا۔
ایودھیا مندر مسجد کا تنازعہ
ایودھیا میں مندر مسجد کا تنازعہ، جو گزشتہ سو سال سے سرد پڑا تھا، 1949 میں ایک بار پھر اس وقت گرم ہوا جب بابری مسجد کے اندر رام للا کی مورتی رکھ دی گئی۔
ہندوؤں کا کہنا تھا کہ بت اپنے طور پر ظاہر ہوا جبکہ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ رات کے وقت مسجد میں داخل ہوئے اور مورتیاں رکھ دیں۔ جب معاملہ ضلع انتظامیہ تک پہنچا تو اس نے مسجد کو متنازعہ قرار دے کر مسجد میں تالا لگا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی ملک میں مکمل طور پر امن قائم تھا اور معاملہ صرف ایودھیا تک ہی محدود رہا۔
یوں تو ملک میں کئی جگہوں پر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے، لیکن ان کا ایودھیا کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن کبھی جلوس کے راستے کو لے کر دونوں فریقوں کے درمیان معمولی بات چیت ہو جاتی تھی اور کبھی مقامی مسئلہ پر ہندو مسلم فسادات ہوتے تھے، لیکن کبھی کوئی فساد اس طرح نہیں ہوا کہ ملک کا ماحول خراب ہو جائے۔
وشو ہندو پریشد کا عروج
1980 کی دہائی میں ایودھیا کا معاملہ اچانک گرم ہوا اور وشو ہندو پریشد اور اس سے منسلک تنظیموں نے مسجد میں پڑے تالہ کو کھولنے اور وہاں پوجا کا حق دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک شروع کی۔
80 کی دہائی میں پنجاب اور گردونواح میں خالصتان تحریک چل رہی تھی، جس کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے۔ 1984 میں امرتسر میں دربار صاحب پر ہندوستانی فوج کی کارروائی اور پھر اندرا گاندھی کے قتل اور پھر اس کے رد عمل اور انتقام کے طور پر سکھوں کے قتل عام کی وجہ سے ایودھیا کی تحریک تیز نہ ہو سکی لیکن جب 1986 میں فیض آباد کی ایک عدالت نے تالا لگانے کا حکم دیا تو رام مندر کی تعمیر کی تحریک تیز ہو گئی۔
منڈل کمیشن
رام مندر کی تعمیر کی تحریک نے 1990 میں اس وقت ملک گیر شکل اختیار کرلی جب اس وقت کے وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو قبول کرلیا اور ملک میں محروم طبقات کے اقتدار میں حصہ داری پر مہر ثبت کر دی۔ اس رپورٹ کی منظوری کے بعد پورے ملک میں ذات پات کی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس وقت ذات پات کے تناؤ سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک بڑے ایشو کی ضرورت تھی، تب بی جے پی نے منڈل کی آگ کو بجھانے کے لیے کمنڈل کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا شروع ہوئی۔
لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو جب بہار میں لالو پرساد یادو نے روک دی، تو بی جے پی نے تیسرے محاذ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی اور پھر ملک میں وسط مدتی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ (اس الیکشن کے دوران راجیو گاندھی کو 21 مئی 1991 کو تمل دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔)
لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا سے بی جے پی کے لیے جو ماحول تیار ہوا اس سے بی جے پی کو تقویت ملی اور پارٹی نے 120 سیٹوں پر جیت حاصل کی لیکن اقتدار میں آنے کی خواہش ادھوری ہی رہ گئی اور کانگریس پارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت تشکیل دے دی۔
اتر پردیش میں بی جے پی بر سر اقتدار
تاہم، بعض ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی جس میں اتر پردیش بھی شامل تھا۔ اتر پردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے منہدم کئے جانے کے بعد ملک میں گویا فرقہ وارانہ فسادات کی آگ لگ گئی۔ (جاری)