2024 کے عام انتخابات کے لیے اسٹیج تیار ہے، مگر آپ یہ بھول جائیں کہ بیروزگاری، مہنگائی، صحت اور تعلیم جیسے مسئلےانتخابی موضوع ہوں گے
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں عوامی مسائل بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی، صحت اور تعلیم جیسے مسائل پہاڑ جیسے کیوں نہ ہو جائیں، نہ تو حکومت اور نہ ہی مین اسٹریم میڈیا کی ترجیحات میں اب ان کی کوئی حیثیت ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ جن لوگوں کے ووٹوں سے بی جے پی نے، یا یوں کہیں کہ آر ایس ایس کے لوگوں نے مسند اقتدار حاصل کی ہے، انہی کی مرضی کے مطابق کام کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے ایک بڑے طبقے کو بھی حکومت کی ترجیحات اور عوام کی خواہشات کا بخوبی اندازہ ہے۔
اسی لیے ملک میں بیروزگاری کتنی بڑھ رہی ہے، اس کو دیکھنے کے بجائے تاج محل کے نیچے مندر تلاش کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، اس کی وجوہات تلاش کرنے کی بجائے گیان واپی مسجد میں مندر کے باقیات تلاش کئے جا رہے ہیں۔ اسپتالوں میں ناقص طبی سہولیات کے سد باب کی بجائے متھرا کی عید گاہ میں مندر نظر آرہا ہے۔ اسکولوں میں تعلیمی نظام درہم برہم ہے، اس میں سدھار کی بجائے قطب مینار میں ’استمبھ‘ دکھایا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ عام لوگ بھلے ہی بنیادی مسائل سے آہ و بکا کر رہے ہوں، لیکن 2014 کے بعد سامنے آئی نئی مخلوق ’بھکتوں اور ’گودی میڈیا‘ کی ترجیحات اور خواہشات کچھ اور ہی ہیں۔
عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ سیاست
بی جے پی کے لیڈران کو بخوبی معلوم ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی بجائے وہ فرقہ وارانہ سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں اور انھیں کامیابی بھی ملتی جا رہی ہے تو ظاہر ہے وہ انہی کی خواہش کے مطابق کام کر یں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 کے لیے بی جے پی نے اسٹیج تیار کر لیا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی اعلی قیادت کو اس کی مرض کے مطابق موضوع مل گیا ہے، یا پھر موضوع بنا دئے گئے ہیں۔ گودی میڈیا کے اسٹوڈیوز اور اخبارات کے صفحات کے لیے فرقہ وارانہ مواد تیار ہے۔ سخت گیر اور مسلم مخالف طاقتوں نے بھی 2024 کے لیے اپنے ارادے ظاہر کر دئے ہیں۔
پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف پچھلے تقریباً دو ماہ سے اور خاص طور پر رمضان سے شروع ہوا طوفان بد تمیزی روز نئی نئی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔کرناٹک اور مدھیہ پردیش سے لے کر گجرات، راجستھان، جھارکھنڈ اتراکھنڈ اور بنگال وغیرہ تک مسلمانوں کی عبادتوں میں خلل ڈالا گیا، انھیں عبادت سے روکا گیا، ان پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، وہی مظلوم اور وہی ظالم ٹھہرائے گئے۔ مسلمان حکومتوں سے تو انصاف کی امید چھوڑ ہی چکے تھے، عدالتوں سے بھی مایوسی ہاتھ لگی۔
تاج محل کے تعلق سے عدالت نے سخت رخ اختیار کیا
ابھی یہ سب چل ہی رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے تاج محل سے لے کر قطب مینار تک اور متھرا کی عید گاہ سے لے کر بنارس کی گیان واپی مسجد تک کو سلسلہ وار طریقے سے عدالتوں میں کھینچ لیا گیا۔ تاج محل کے تعلق سے تو عدالت نے سخت رخ اختیار کیا اور عرضی گزار کی سخت سرزنش کی۔ تاج محل میں موجود کمروں کو کھولنے کی عرضی داخل کر نے والے بی جے پی لیڈرکو ہائی کورٹ نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ تاج محل کی تاریخ پڑھیں اور اس پر تحقیق کریں کہ تاج محل کس نے اور کب بنوایا تھا۔ آپ کے مطابق تاریخ کو نہیں پڑھایا جا سکتا۔
عدالت نے پہلی ہی سماعت کے دوران رٹ کو خارج کرنے کا فیصلہ بھی دے دیا۔ ایودھیا ضلع کے بی جے پی کے میڈیا انچارج ڈاکٹر رجنیش سنگھ نے 7 مئی کو ہائی کورٹ میں رٹ داخل کی تھی، جس میں انھوںنے تاج محل کے 22 کمروں کو کھولنے اور تاج محل کا سروے کرانے کے لیے کمیٹی تشکیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ و اضح رہے کہ تاج محل کے تہہ خانہ میں واقع کمرے گزشتہ پچاس سال سے لوہے کے جال لگا کر بند کردئے گئے ہیں، مگر اے ایس آئی کی ٹیم کی نگرانی میں مرمت کے لیے ان کو کھولا جاتا رہا ہے۔ عرضی گزار نےدعویٰ کیا تھاکہ تاج محل کے ان بند کمروں میں ہندو دیوی دیوتائوں کی مورتیاں موجودہیں۔ جس کاسروے کرکے اس کی حقیقت کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ راجستھان سے بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ دیا کماری نے بھی مضحکہ خیز دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاج محل ان کی زمین پر تعمیر ہوا ہے۔ تاج محل سے قبل وہ تیجو محل تھا، جس پر شاہ جہاں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اسی طرح قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ اور گیان واپی مسجد کے معاملے بھی عدالتوں میں ہیں۔ گیان واپی مسجد کے تعلق سے 16 مئی کو جس طرح کی سرگرمی دیکھی گئی اور یکطرفہ موقف کو پورے دعوے کے ساتھ میڈیا اور مقامی عدالت نے پیش کیا، وہ اس کے نتیجوں کا اشارہ ہے۔
سروے رپورٹ پیش ہونے سے قبل ہی یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسجد کے حوض میں شیو لنگ ملا ہےاوراس کی بنیاد پر مقامی عدالت نے مسجد کے متعلقہ حصے کو سیل کرنےکا حکم بھی دے دیا۔جبکہ مسلم فریق کے مطابق حوض کے فوارہ کو ہی شیو لنگ قرار دیا گیاہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ سروے کرنے والی ٹیم نے اپنی رپورٹ ابھی عدالت میں پیش بھی نہیں کی تھی اور رپورٹ دیکھے بغیر ہی ضلع مجسٹریٹ کی عدالت نے ہندو فریق کے اس دعوے پر کہ مسجد میں مذہبی علامت ملی ہے، حوض اوراس کے اطراف کے حصے کو سیل کرنے کا حکم دےدیا۔
اس سے پہلے عدالت نے حکم دیا تھا کہ 17 تاریخ کو عدالت میں رپورٹ پیش ہوگی۔ اس پر سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کی بات باہر کیسے پہنچی۔اس کے علاوہ سروے کے فوراً بعد 12 بجے رٹ بھی داخل ہو گئی اور عدالت سے حکم بھی جاری ہوگیا کہ شیولنگ کی حفاظت کی جائےاور مسجد میں صرف 20 نمازیوں کے نماز پڑھنے کی قید بھی لگا دی گئی۔ حالانکہ منگل کو سپریم کورٹ سے کچھ راحت ضرور ملی، مگر اس کا رخ بھی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ کیوں کہ مقامی عدالت کے اس حکم کو برقرار رکھا ، جس میں مسجد میں شیو لنگ ملنے کے دعوے اور اس علاقے کو سیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کا مذہبی سرگرمیوں کے لیے مسلمانوں کا داخلہ بند نہ کرنے کا حکم
وہیں سپریم کورٹ نے نماز یا مذہبی سرگرمیوں کے لیے مسلمانوں کا داخلہ بند نہ کرنے کا حکم سنایا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمی نے مسجد کمیٹی کی درخواست پر ہندو فریق کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس کے علاوہ یوپی حکومت، بنارس کے ڈی ایم، پولیس کمشنر اور شری کاشی وشوناتھ مندر کے بورڈ کے تمام ٹرسٹیوں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ یہ تو عدالتوں کی کارروائی ہے، جس میں اب 2024 تک لوگ الجھے رہیں گے۔
اسے ملک کا المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے عوام، حکومتیں، عدلیہ اور میڈیا سبھی ایسے غیر ضروری مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں، جن کا ملک کی ترقی و خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ عوام کو نہ تو اپنے مستقبل کی فکرہے اور نہ ہی روزگار اور بنیادی ضروریات کی۔ اسی لیے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی ترجیحات بھی طے کر لی ہیں۔
اب ان کے ایجنڈے میں عوامی مسائل کہیں نظر نہیں آتے۔وہ بہت آسانی کے ساتھ وہ لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کر دینے، ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے اور مسائل کونظر انداز کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک عوام کی آنکھوں پر پردہ پڑا رہے گا اور ان کا ذہن سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری رہے گا،حکمراں اپنی سیاسی بساط یوں ہی بچھاتے چلے جائیں گے۔ یہ نہ عوام کے حق میں ہے اور نہ ہی ملک کے مستقبل کے لیےنیک شگون ہے۔ آج بھلے ہی ہمیں اس کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن اشارے ضرور مل رہے ہیں کہ اگر ایسے ہی سب چلتا رہا تو ہندوستان کا مستقبل بہت زیادہ تابناک نہیں ہے۔ پھر بھی ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بقول شاعر؎
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے