حالیہ اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول کے بعد حتمی نتائج کیا ہوں گے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ اس لیے دل تھام کر 10 مارچ کا انتظار کریں
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات 7 مارچ کو مکمل ہو گئے۔ اب انتظار ہے 10 مارچ کا، جب امیدواروں کی قسمت کا پٹارہ کھلے گا۔ مگر اس سے پہلے امیدواروں، سیاستدانوں، سیاسی پنڈتوں اور عوام کی دھڑکنیں تیز ہو گئی ہیں۔دھڑکنوں کو مزید تیز کرنے کا کام کیا ہے مختلف ایجنسیوں اور نیوز چینلوں کے سروے یعنی ایگزٹ پولز نے۔ جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں، ان میں اترپردیش، اترا کھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا شامل ہیں۔
ان سبھی ریاستوں میں نتائج کا اعلان ایک ہی دن کیا جائے گا۔ تاہم نتائج کے حتمی اعلان سے پہلے سبھی نیوز چینلوں نے مختلف ایجنسیوں اور اداروں کے ساتھ مل کر ان پانچوں ریاستوں کے انتخابات کے ایگزٹ پول جاری کردئے۔ ا ن کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان ریاستوں میں اگلی سرکار کس پارٹی کی بن سکتی ہے۔ یہ ایگزٹ پول ووٹنگ کے دوران کئے گئے سروے کی بنیاد پر تیار کئے جاتے ہیں اور اس کے نتائج کو حتمی نہیں مانا جاسکتا۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ انتخابی نتائج ان ایگزٹ پولز کے بالکل برعکس آئے ہیں، جبکہ کئی بار یہ صحیح بھی ثابت ہوئے ہیں۔پھر بھی یہ ایگزٹ پول محض ایک اندازہ ہے، حتمی نتائج نہیں۔
ایگزٹ پول در اصل ایک نفسیاتی کھیل ہے
ایگزٹ پول در اصل لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کا ایک نفسیاتی کھیل ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد دکھائے گئے ایگزٹ پول کے ذریعہ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ آئے گی تو بی جے پی ہی۔ جبکہ انتخابات کے دوران زمینی سطح پر حالات کچھ اور ہی تصویر بیان کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ انتخابات کے دوران بی جے پی کے خلاف نظر آنے والا ماحول، حزب اختلاف کے لیڈران کے انتخابی جلسوں میں امڈنے والی بھیڑ، ٹی وی چینلوں اور یو ٹیوب چینلوں پر نظر آنے والا عام لوگوں کا غصہ اور ناراضگی، کسان، نوجوان، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسئلوں پر بغلیں جھانکتے بی جے پی لیڈر، انتخابی جلسوں میں نظر آنے والی خالی کرسیاں، اس کے امیدواروں کو مختلف مقامات پر عوام کی ناراضگی کا سامنا، تمام کوششوں کے باوجود مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات بھڑکانے میں ناکامی سب کے سامنے ہے۔
ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی
ان سب کے بعد بھی اگر بی جے پی کامیاب ہوجاتی ہے، تو پھر ہمیں انتخابی عمل پر نظر ثانی کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن نے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر مختلف سطحوں پر بار بار سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی اور کچھ مقامات پر انتخابی عملہ اور افسران کی جانبداری کی خبروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب بھی ای وی ایم پر سوالات اٹھتے ہیں تو وہ حزب اختلاف کی جانب سے ہی اٹھائے جاتے ہیں، آخر حکمراں جماعت پر کوئی فرق کیوں نہیں پڑتا؟
حالیہ انتخابات میں ایک شکایت
ایسی بھی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ ووٹر نے بٹن کسی دوسری پارٹی کا دبایا، لیکن ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں گیا۔ حالیہ انتخابات میں ایک شکایت تو یہ بھی آئی کہ یوپی میں کسی جگہ پر سماجوادی پارٹی کے بٹن کو چپکا دیا گیا تھا۔ یعنی گاؤں دیہات یا ناخواندہ افراد کو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ ان کا ووٹ پڑ گیا یا نہیں۔ لہذا ووٹنگ کے عمل کو جب تک بالکل شفاف نہیں بنایا جائے گا اور الیکشن کمیشن حکمراں جماعت کا آلہ کار نظر آئے گا، سوالات تو اٹھتے ہیں رہیں گے۔
جہاں تک ایگزٹ پول کی بات ہے تو یہ ووٹنگ کے بعد کا ایک سروے ہوتا ہے۔ اس سے کچھ حد تک ووٹ ڈالنے کے بعد ووٹر کا مزاج معلوم ہوتا ہے۔ ایگزٹ پول کا مقصد رائے دہندگان سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج کی پیشین گوئی کرنا ہے۔ یہ ایگزٹ پول کئی اداروں اور نیوز چینلوں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ووٹ ڈالنے سے پہلے عوام کا موڈ جاننے کے لیے ایک سروے کیا جاتا ہے، اسے اوپنین پول کہتے ہیں۔ جبکہ ووٹنگ کے بعد ہونے والے سروے کو ایگزٹ پول کہا جاتاہے۔
ایگزٹ پول پر پابندی لگانے کا مطالبہ
دوردرشن نے سب سے پہلے1996ء میں ایگزٹ پول شروع کیا تھا۔ جب رائے دہندگان ووٹ ڈالنے کے بعد جا رہے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کس کو ووٹ دیا؟ اس بنیاد پر کئے گئے سروے سے جو جامع نتائج سامنے آئے، انہیں ایگزٹ پول کا نام دیا گیا۔ 1998ء میں الیکشن کمیشن نے رائے شماری اور ایگزٹ پول پر پابندی لگا دی۔ تاہم بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ 2009ء میں ایک بار پھر ایگزٹ پول پر پابندی لگانے کا مطالبہ سامنے آیا۔ پھر قانون میں ترمیم کی گئی، جس کے مطابق حتمی ووٹ ڈالے جانے تک انتخابی عمل کے دوران ایگزٹ پول نہیں دکھائے جا سکتے۔
2022ء کے ایگزٹ پول کے نتیجوں پر متفق یا غیر متفق ہونے سے پہلے 2017ء کے اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول پر بھی نظر ڈال لینا چاہئے۔ 2017ء میں ان ریاستوں کے ایگزٹ پول میں کیا کہا گیا تھا اور نتائج کیا رہے؟ یوپی میں پچھلی بار یعنی 2017ء میں بھی سات مرحلوں میں انتخابات ہوئے تھے۔ کسی نے اپنے سروے میں بتایا تھا کہ بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی تو کسی نے اکثریت کے قریب پہنچایا تھا اور کسی نے پیشن گوئی کی کہ بی جے پی اکثریت سے بہت دور رہے گی۔ نتائج اس کے برعکس آئے۔
پنجاب الیکشن کے ایگزٹ پول کی پیشین گوئی بھی صحیح نہیں
بی جے پی کو تمام ایگزٹ پولز سے بہت زیادہ سیٹیں ملیں۔ ایکسس کے سروے میں بی جے پی اتحاد کو سب سے زیادہ279 سیٹیں دی گئیں، لیکن بی جے پی اتحاد نے 325 سیٹیں جیتیں۔ بی جے پی نے اکیلے312 سیٹیں جیتی تھیں۔ وہیں اتراکھنڈ میں بھی 2017ء میں اندازہ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ چانکیہ نے بی جے پی کو53 سیٹیں دی تھیں، جبکہ ایکسس سروے نے 46 سے53 سیٹوں کی پیشن گوئی کی تھی۔ نتیجہ میں بی جے پی کو کسی بھی دوسرے سروے سے زیادہ سیٹیں ملیں۔2017ء کے پنجاب الیکشن میں ایگزٹ پول کی پیشین گوئی بھی صحیح نہیں رہی تھی۔ سبھی ایگزٹ پول عام آدمی پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں دے رہے تھے، لیکن عام آدمی پارٹی صرف20 سیٹوں پر سمٹ گئی اور کانگریس نے77 سیٹیں جیت کر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔
منی پورمیں 2017ء میں کسی کو اکثریت نہیں ملی اور سبھی ایگزٹ پول غلط نکلے۔ ایگزٹ پول میں انڈیا ٹی وی کے سی ووٹرز نے بی جے پی کو اکثریت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ اس کے برعکس کانگریس کی نشستیں کافی کم بتائیں۔ نتائج اس کے برعکس نکلے۔ تاہم، بعد میں بی جے پی کئی کانگریس ایم ایل ایز کو توڑ کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ ریاست میں 60 نشستیں ہیں اور اکثریت حاصل کرنے کے لئے 31سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ کانگریس نے 28 سیٹیں جیتیں، جبکہ بی جے پی کے 21 امیدوار کامیاب ہوئے۔
2017ء کے گوا اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول
اسی طرح 2017ء میں گوا اسمبلی انتخابات کے تقریباً تمام ایگزٹ پول کی پیشین گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ سبھی نے بی جے پی کو اکثریت کے بہت قریب بتایا تھا، لیکن نتائج مختلف نکلے۔ دہلی کے پچھلے تین اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔
ایگزٹ پولز میں عام آدمی پارٹی کو کم سیٹیں دی گئیں۔ تاہم جب نتیجہ آیا تو ’آپ‘ نے ہر الیکشن میں سب کو حیران کر دیا۔ 2018ء چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سخت مقابلے کی بات کی جا رہی تھی۔ تاہم کانگریس نے زبردست جیت درج کی۔
لوک سبھا انتخابات کے ایگزٹ پول بھی ناکام
اسی طرح 2004ء کے لوک سبھا انتخابات میں تمام ایگزٹ پولز نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کے قیام کی پیش گوئی کی تھی۔ تاہم انتخابی نتائج اس کے برعکس آئے۔ جہاں این ڈی اے کو189 سیٹیں ملیں، وہیں یو پی اے نے222 سیٹیں جیتیں اور ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے۔ 2009ء کے لوک سبھا انتخابات کے ایگزٹ پول بھی ناکام ثابت ہوئے۔ ایگزٹ پول میں کہا گیا کہ این ڈی اے کو برتری حاصل ہوگی، مگر تنہا کانگریس نے206 اور یو پی اے کو 262 سیٹیں حاصل ہوئیں۔ لہذا ابھی 10 مارچ تک دل تھام کر حتمی نتیجوں کا انتظار کریں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com
_مضمون میں پیش کیے گئے افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں_