ہفتہ, مارچ 25, 2023
Homeرائےاتر پردیش انتخابات: یوپی کے مسلمان کو سیاست میں حصہ داری چاہیے...

اتر پردیش انتخابات: یوپی کے مسلمان کو سیاست میں حصہ داری چاہیے یا فرقہ پرستوں کی شکست؟

اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے! فیصلہ تھوڑا سخت ہے، مگر یہاں کے مسلمانوں کو سیاست میں اپنی حصہ داری اور فرقہ پرستوں کی شکست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

اسمبلی انتخابات پانچ ریاستوں میں ہو رہے ہیں۔ جیت اور ہار کہیں بھی ہو، بہت معنی رکھتی ہے۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں سب جگہ اپنے اپنے مہرے بچھا رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یوپی پر ہی سب کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ یوپی میں بھی مغربی یوپی اور یہاں کے مسلمان سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس کی کئی اہم اور بنیادی وجوہات بھی ہیں۔ کیوں کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ مغربی یوپی نے پوری ریاست کی سیاست کی سمت طے کر دی ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکمراں جماعت کی اعلی ترین قیادت نے اس خطہ میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ یہ لوگ جتنی شدت سے ہندو، مسلمان، پاکستان، قبرستان، مظفر نگر فسادات کا ذکر کر رہے ہیں اور جاٹ اور مسلمانوں کے زخموں کو کریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، اتنی ہی شدت سے علاقہ کے عوام اتحاد و اتفاق اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

کسانوں نے پہلے ہی انتخابات کی سمت طے کر دی ہے

مسلمانوں کی بھرپور آبادی والا مغربی یوپی کا یہ پورا علاقہ کسانوں کے غلبہ والا علاقہ کہلاتا ہے۔ کسانوں نے پہلے ہی ان انتخابات کی سمت طے کر دی ہے۔ کیوں کہ ایک سال تک ملک کے کسان جس مشکل دور سے گزرے اور انھوں نے جو قربانیاں دیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لہذا اب جبکہ ان کے ہاتھ حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کا موقع آیا ہے تو وہ اسے یوں ہی جانے نہیں دیں گے۔ مغربی یو پی کے جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی تفریق اور امتیاز نہیں رہا، لیکن 2013ء میں فرقہ پرست طاقتیں اس اتحاد کو توڑنے میں کامیاب ہو گئیں۔ یہاں آگ لگا کر پہلے 2014ء اور پھر 2017ء اور 2019ء میں خوب سیاسی روٹیاں سینکی گئیں۔ آخر کار 2022ء آتے آتے حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔

اب یہاں ہندو اورمسلمان کے درمیان کوئی خلش نظر نہیں آتی، بلکہ سب کسان ہیں۔ ایک سال تک چلنے والی کسان تحریک نے فرقہ پرستوں کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ ان کی پیشانی پر نظر آنے والی پریشانی کی لکیریں اس بات کی گواہ ہیں۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلی جیسے عہدوں پر بیٹھے لوگ اپنی زبان سے بھی اس پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیاسی بساط پلٹتے دیکھ کر ان عہدوں کے وقار کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔

مسلمان با حیثیت ہوتے ہوئے بھی بے حیثیت

یوپی میں مسلمانوں کی آبادی، ان کے ووٹوں اور ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص مغربی یوپی کے کئی اضلاع میں مسلمان فیصلہ کن سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایوان میں ان کی بھرپور نمائندگی ہونی چاہئے، لیکن پچھلے کچھ عرصہ کے دوران مسلم ووٹوں کی حیثیت بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے۔ پچھلے کئی انتخابات سے سیکولر کہی جانے والی جماعتیں بھی مسلمانوں کو وہ اہمیت نہیں دے رہی ہیں، جس کے وہ حقدار ہیں۔ اسے وقت اور حالات کی ستم ظریفی کہیں یا مسلمانوں کے سیاسی شعور کی ناپختگی، کہ وہ با حیثیت ہوتے ہوئے بھی بے حیثیت بن کر رہ گئے ہیں۔

یہ انتخابات یقیناً یوپی کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کا بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔ ساتھ ہی یوپی ہی نہیں، ملک کی سیاست کی سمت بھی طے کریں گے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج بھی مسلمان تذبذب کا شکار ہیں۔ یوپی میں اگرچہ کافی حد تک تصویر واضح ہے، پھر بھی مسلمان اس کشمکش میں ضرور ہیں کہ وہ فرقہ پرستوں کو شکست دینے کو ترجیح دیں یا پھر اپنی سیاسی نمائندگی یا حصہ داری بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکولر جماعتوں نے بارہا مسلمانوں کے ووٹوں سے اپنی سیاسی کشتیاں بھنور سے نکالی ہیں اور مسند اقتدار تک پہنچی ہیں، لیکن مسلمانوں کو بار بار طوفان میں لا کر چھوڑا ہے۔

یوپی میں مسلمانوں کی آبادی

یوپی میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20؍ فیصد ہے اور ان میں زیادہ تر مغربی یوپی میں ہی ہیں۔  ریاست کی تقریباً 150؍ سیٹوں پر مسلم رائے دہندگان اپنا اثر رکھتے ہیں۔ ان میں سے نصف پر مسلم آبادی 20؍ سے 30؍ فیصد تک ہے۔ نصف سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان 30؍ فیصد سے زیادہ ہیں۔ ریاست میں تقریباً تین درجن ایسی سیٹیں بھی ہیں جہاں مسلم رائے دہندگان ہی امیدوار کی جیت اور ہار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جبکہ تقریبا ً 100؍ سیٹوں پر مسلمان براہ راست اپنا اثر رکھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مغربی یوپی میں اور کچھ مشرقی یوپی میں ہیں۔ سب سے زیادہ مسلم آبادی والی سیٹ رام پور ہے، جہاں 50؍ فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ مغربی یوپی میں لوک سبھا کی 27؍ سیٹیں ہیں۔

2017 میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں مغربی یوپی کا اہم کردار

2014ء میں بی جے پی نے ان میں سے24؍ سیٹیں جیتی تھیں۔ اسی طرح 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی یہاں 19؍ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں مغربی یوپی کا اہم کردار تھا، کیونکہ یہاں کی 136؍ اسمبلی سیٹوں میں سے 109؍ سیٹوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کے لیے حالات بالکل سازگار نہیں ہیں۔ کیونکہ اس بار مغربی یوپی میں سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کا اتحاد ہوا ہے۔

جاٹ اور مسلمان ایک بار پھر متحد نظر آ رہے ہیں۔ مغربی یوپی میں 27؍ فیصد مسلمان اور 17؍ فیصد جاٹ ووٹر ہیں۔ اس کے علاوہ یادووں کو بھی اگر ملا لیا جائے تو یہ 51؍ فیصد ہو جاتے ہیں۔ اب بی جے پی کو ڈر ہے کہ مسلمان، جاٹ اور یادو کے علاوہ کچھ دوسری برادریاں اس اتحاد کی طرف آ گئیں تو پھر اس علاقے میں بی جے پی کے لئے کیا بچے گا؟

جیت کے بعد بھی یوگی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے محروم رہنے کا امکان

ایسے میں یوگی کی 80؍ بنام 20؍ فیصد کے سہارے فرقہ وارانہ لکیر کھینچنے کی کوشش یہیں ماند پڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے والا یوگی کا یہ داؤ پلٹ گیا تو کہنے لگے کہ ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ 80؍ فیصد سیٹوں پر بی جے پی اور 20؍ فیصد سیٹوں پر باقی جماعتیں جیتیں گی۔ لیکن ان کی پریشانی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اگر بی جے پی یوپی میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے، تو اس مرتبہ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے محروم رہ جائیں۔

جہاں تک یوپی میں مسلمانوں کی نمائندگی اور حصہ داری کی بات ہے تو ملک کی تعمیر و ترقی میں جس طرح مسلمانوں نے ہمیشہ اپنا بھرپور تعاون دیا ہے، اس لحاظ سے انھیں سیاسی حصہ داری نہیں دی گئی۔ ریاست میں تقریباً 20؍ فیصد مسلمان ہونے کے باوجود اسمبلی میں ان کی نمائندگی محض 4.5؍ فیصد ہے۔ یعنی 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں صرف 23؍ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ 2012ء میں 68؍ مسلم نمائندے یوپی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جب جب بی جے پی کی طاقت بڑھی ہے، مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کم ہوئی ہے۔

رام مندر تحریک کے عروج کے دور میں سب سے کم مسلم ایم ایل اے

1991ء میں رام مندر تحریک کے عروج کے دور میں سب سے کم محض 17؍ مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1951-52 میں ہوئے پہلے اسمبلی الیکشن میں 41؍ مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد 1957ء میں 37؍ ،1962ء میں30؍ اور 1967ء کے اسمبلی انتخابات میں 23؍ مسلم ایم ایل اے جیتے۔ 1969 میں ہونے والے الیکشن میں 29؍ مسلم ایم ایل اے بنے، لیکن 1974ء میں پھر کمی دیکھی گئی اور صرف 25؍ مسلم امیدوار ہی جیت درج کر سکے۔ تاہم اس کے بعد مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ 1977ء میں مسلم ایم ایل اے کی تعداد بڑھ کر 49؍ ہوگئی۔ اسی اتار چڑھاؤ کے درمیان 1991ء میں رام مندر تحریک کے دوران صرف 17؍ مسلم امیدوار جیت سکے۔

تاہم اس کے بعد مسلم اراکین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا۔ 1993ء میں 28؍ 1996ء میں 38؍ 2002ء میں 64؍ مسلم نمائندے اسمبلی پہنچے۔ حالانکہ 2007ء میں مایاوتی کے دور میں مسلمانوں کی تعداد میں پھر کمی آئی اور ان کی تعداد 54؍ ہوگئی، لیکن 2012ء میں یہ تعداد 69؍ تک پہنچ گئی۔ پھر جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2017ء میں زبردست کامیابی حاصل کی، یہ تعداد کم ہو کر 23؍ پر آ گئی۔ اب بس 10؍ مارچ کا انتظار ہے جب معلوم ہوگا کہ اس مرتبہ یوپی کے مسلمانوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments