تمام مغل حکمرانوں میں سب سے زیادہ متنازعہ حکومت اورنگ زیب کی تھی۔ یہ خیال غلط ہے کہ اورنگ زیب ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے اور یہ کہ انہوں نے مندروں کو منہدم کیا۔ بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے بہت سے مندروں کی تعمیر کرائی یا زمین فرہم کی۔
یہ غلط ہے کہ اورنگ زیب ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے
امریکی مورخ تروشاک کے مطابق انگریزوں نے "تفرقہ ڈال کر حکومت کرنے” کی پالیسی کے تحت ایسی باتوں کی دانستہ تشہیر کی۔ میرے خیال میں اورنگ زیب نے کسی خاص مذہب کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے جسے کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اسے تباہ کر دیا، چاہے وہ گرو تیغ بہادر اور ان کے بچے ہوں یا وہ ان کے حقیقی بھائی کیوں نہ ہوں۔ اقتدار کو جس سے بھی خطرہ محسوس ہوا اورنگ زیب نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صوفی بزرگ اور فارسی کے عظیم شاعر سرمد کے قتل میں بھی یک لخت تاخیر نہیں کی۔ جنوب میں بیجاپور اور گولکنڈہ کی مسلم سلطنتوں سے ان کی جھڑپیں ہوئیں۔ شمال مغربی سرحدوں پر، اورنگ زیب کو بھکو یوسفزئی جیسے مسلم جنگجوؤں اور خٹک قبیلے کے سربراہ اور پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی للکارا اور مغل افواج کے ساتھ جنگ ہوئی۔
جنگ و جدال سے بھرپور اورنگ زیب کا 49 سالہ دور حکومت
اگر مراٹھی فوجوں کی طرف سے ان کی مخالفت کی گئی تو دہلی کے آس پاس آباد سیدوں (جن کو سادات بارہا کہا جاتا تھا) نے اورنگ زیب کے خلاف بغاوت جاری رکھی۔ اورنگ زیب ان طاقتوں کو دبا نہیں سکے اور اورنگ زیب کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔
اورنگ زیب کا سب سے بڑا ٹکراؤ مراٹھی سورما شیواجی کے ساتھ تھا۔ اس ٹکراؤ کو بہت سے لوگ ہندو مسلم تنازعہ کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ شیواجی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو ہندو مسلم اتحاد کی علامت تھا۔
شیواجی کے دادا مالوجی بھونسلے سلطنت احمد نگر کے نظام ملک عنبر کے کمانڈر تھے اور ان کی قیادت میں ملک عنبر کی فوجوں نے مغل حکمرانوں کے خلاف بہت سی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کامیابیوں سے خوش ہو کر ملک عنبر نے مالوجی بھونسلے کو اپنا وزیراعظم مقرر کیا اور انہیں راجہ کا خطاب دیا۔
شیواجی کی مسلمانوں سے گہری دوستی
مالوجی بھونسلے کو ایک مشہور صوفی بزرگ اور فقیر "شاہ شریف” کی درگاہ سے بہت عقیدت تھی۔ جب ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے تو انہیں لگا کہ ان کے ان دونوں بیٹوں کی پیدائش شاہ شریف کی دعاؤں سے ہوئی ہے۔ اس لیے انہوں نے ایک بیٹے کا نام شاہ جی اور دوسرے کا نام شریف جی رکھا۔ شیواجی مالوجی کے بڑے بیٹے شاہ جی کا بیٹا تھا۔
شیواجی خود بھی بڑے سیکولر تھے۔ وہ ایک صوفی بزرگ "یعقوب بابا” کے مرید بھی تھے۔ لیکن یہ ان کے سیکولر ہونے کا واحد ثبوت نہیں ہے بلکہ مسلمان قدم قدم پر ان کی زندگی میں شامل تھے۔ ان کے توپ خانے کا انچارج ایک مسلمان جرنیل تھا جس کا نام ابراہیم خان تھا۔ شیواجی کی سب سے بڑی طاقت اس کی بحریہ تھی (جو اس وقت کی جدید ترین سمندری قوت تھی) جس کی کمان بھی شیواجی نے دولت خان نامی ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی۔
اس کے علاوہ ایک فوجی جنرل شیواجی کا ایک انتہائی قابل اعتماد کردار تھا، جس کا نام سید بلال تھا، جس نے اورنگ زیب کی فوج کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ پتہ نہینہ جانے فرقہ پرست عناصر اس حقیقت سے کیوں کر بے خبر ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سپاہیوں پر مبنی شیواجی کی فوج میں 66000 مسلمان تھے۔
بھارت میں ہندو مسلم اتحاد کی مضبوط جڑیں
شیواجی کی لڑائیوں کو ہندو مسلم لڑائیوں کی شکل میں دیکھنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ قاضی حیدر نامی ایک مسلمان شیواجی کا پرسنل سیکرٹری اور ایلچی تھا اور سید ابراہیم ان کے سیکورٹی افسر تھے۔ ان کے علاوہ شیواجی کے پرسنل اسسٹنٹ مداری بھی ایک مسلمان تھا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب شیواجی اورنگ زیب کے بلانے پر آگرہ گئے اور وہاں دھوکہ دہی سے قید کرلیے گئے تو انہیں اور ان کے 9 سالہ بیٹے کو قلعے کے مسلمان عملے نے قلعے کی قید سے فرار ہونے میں مدد فراہم کی۔ ان تمام حقائق کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل وطن جان سکیں کہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔
اسی لیے ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے حکمرانوں نے مذہب کی جنگ نہیں لڑی بلکہ اقتدار حاصل کرنے یا اسے برقرار رکھنے کے لیے جنگیں لڑیں۔ اورنگ زیب کو ہی دیکھ لیں، وہ اپنے دونوں بیٹوں اکبر شاہ اور شاہ عالم کی بغاوت کے ذمہ دار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شہزادہ اکبر شاہ نے اپنے والد اورنگ زیب کے خلاف بغاوت کی تو انہیں مراٹھا حکمران شیواجی کے بیٹے چھترپتی سمبھاجی نے پناہ دی جو اورنگ زیب کے سخت مخالف تھے۔ (جاری)