اس تاریخی حقیقت کو ذکر کرنے کا مقصد یہ کہ جن حکمرانوں کو ہندوؤں کا دشمن بتایا جاتا ہے ان کی بادشاہت میں خود مسلمانوں کا کس قدر خون بہایا گیا
جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں
جہانگیر کے بعد اس کا بیٹا شہاب الدین محمد خرم، جن کا عرفی نام شاہ جہاں تھا، آگرہ کے تخت پر بیٹھے۔ شاہ جہاں کو بھی تخت آسانی سے نہیں ملا۔ انہوں نے اپنے بھائی شہزادہ خسرو کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
شاہ جہاں سے متعلق ایک اہم بات یہ تھی کہ جب جہانگیر کی طاقتور ملکہ نورجہاں نے شاہ جہاں سے قندھار پر ایرانی حملوں کا سامنا کرنے کو کہا تو شاہ جہاں نے اپنی سوتیلی ماں کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے باپ کی فوج کے خلاف بغاوت کر دی جس کے نتیجے میں قندھار مغلوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔
شاہ جہاں کو بھی اپنے والد کی فوج کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی اور پھر اپنی جان بچانے کے لیے اسے میواڑ کے ہندو بادشاہ مہارانا کرن سنگھ (دوم) کی پناہ لینی پڑی۔
مہارانا کرن سنگھ نے پہلے شاہ جہاں کو دلوارہ کی حویلی میں رکھا، اور بعد میں ادے پور کے شاندار جگ مندر محل میں سکونت فراہم کی۔ بعد میں جہانگیر نے شاہ جہاں کو معاف کر دیا اور وہ آگرہ واپس چلا گئے۔
اکبر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی
اورنگ زیب نے خود کو مغل بادشاہ کے بجائے خلیفہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ دارا شکوہ اپنے پردادا اکبر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی یا صلح کل کی وراثت کی احیا کرنا چاہتے تھے۔
جہانگیر کی موت کے بعد ان کے تیسرے بیٹے شہزادہ شہریار کو تقریباً ایک سال کے لیے اقتدار ملا لیکن شاہ جہاں نے انہیں تخت سے بے دخل کرکے مغل سلطنت پر قبضہ کر لیا اور پھروہ اپنی سوتیلی ماں نورجہاں کو نظربند کردیا۔ اس نے اپنے حقیقی بھائی شہریار اور بھتیجوں سمیت ایسے تمام رشتہ داروں کو قتل کر دیا جو ان کی طاقت کے لیے خطرہ بنا سکتے تھے۔
شاہ جہاں کی فوج کا ایران کی صفوی سلطنت، جنوب کی مسلم سلطنتوں اور سکھوں کے چھٹے گرو شری ہرگوبند جی کے ساتھ بھی جھڑپیں ہوئیں اور ان کی فوجوں کا پرتگالی فوج سے بھی مقابلہ ہوا۔
مسلمانوں کا قتل
ان تاریخی حقائق کو تذکرہ کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ جن حکمرانوں کو ہندوؤں کا دشمن بتایا جاتا ہے ان کی بادشاہت میں خود مسلمانوں کا کس قدر خون بہایا گیا۔ جب بھائی کو اقتدار کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوئی تو پھر اقتدار کے لیے خطرہ بننے والے دوسرے مذہب کے حکمرانوں کی کوئی پرواہ کیسے کرے۔
ویسے شاہ جہاں کو تاج محل جیسی عمارت کی تعمیر اور دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کرنے اور لال قلعہ اور جامع مسجد جیسی عظیم الشان عمارتوں کی تعمیر کے لیے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کا نام تاریخ میں کہیں بھی ہندوؤں پر مظالم یا مذہبی امتیاز کے لیے درج نہیں ہے۔ شاہ جہاں کے بعد ان کے بیٹوں میں اقتدار کی زبردست لڑائی ہوئی اور پھر ان کے بیٹوں کے ساتھ وہی ہوا جو انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔
شاہجہاں اور ان کے بیٹے
شاہ جہاں کے چار بیٹے تھے، دارا شکوہ، اورنگ زیب، مراد اور شجاع، اور چاروں اپنے والد کی وفات کے بعد ہندوستان کا حکمران بننے کے خواہشمند تھے، جب کہ شاہ جہاں اپنی سلطنت بڑے بیٹے دارا شکوہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔
دارا شکوہ – سیکولر اور کھلے ذہن کے مالک
دارا شکوہ ایک عظیم عالم اور سیکولر سیکولر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مذہبی اتحاد کے پروگرام جسے ان کے پردادا اکبر نے شروع کیا تھا اس صلح کل کو دوبارہ شروع کیا جائے۔
1657 عیسوی میں شاہ جہاں بیمار ہو گئے جس کے بعد یہ خبر پھیل گئی کہ شاہ جہاں کا انتقال ہو گیا ہے اور دہلی میں موجود دارا شکوہ اپنے والد کی موت کو چھپا رہا ہے۔ اس کے بعد چاروں بیٹوں میں جنگیں ہو ئیں۔ بھائیوں کے درمیان اس لڑائی میں صرف اورنگ زیب رہ گئے اور باقی تین کا قتل ہوگیا۔
اورنگ زیب کا دور حکومت
شاہ جہاں اپنی بیماری سے ٹھیک ہو گئے لیکن اورنگ زیب نے انہیں گرفتار کر کے آگرہ میں قید کر دیا اور دہلی کے تخت نشیں ہوگئے۔ اورنگ زیب کا اصل نام محی الدین محمد تھا۔ انہوں نے ہندوستان پر 49 سال تک حکومت کی۔
مغل حکمرانوں میں اورنگ زیب کا دور حکومت سب سے زیادہ متنازعہ رہا۔ اس نے دنیا میں خود کو ایک متشدد مسلمان کے طور پرمتعارف کرایا اور سب کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ بھی سرکاری خزانے سے کوئی پیسہ نہیں لیتے اور قرآن پاک کے نسخے لکھ کر اور ٹوپیاں بیچ کر اپنا خرچہ چلاتے ہیں۔ تاہم ہندوستان کے کسی مورخ نے اورنگ زیب کے نسخے نہیں دیکھے۔ ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن امریکہ کے کسی بھی بازار میں نہیں پائے گئے اور کسی کو نہیں معلوم کہ اورنگزیب کے ہاتھ سے بنی ٹوپیاں کہاں فروخت ہوئیں۔
اسلامی قانون متعارف کرانے کی کوشش
درحقیقت اورنگ زیب اپنے بھائیوں کو قتل کرنے اور باپ کو ساڑھے سات سال تک قید رکھنے کے جرم سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مغل بادشاہ کے بجائے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اورنگ زیب نے بھی اپنے عہد میں اسلامی قانون متعارف کرانے کی کوشش کی اور شراب نوشی، جوا کھیلنے، عورتوں کے ستی ہونے اور لڑکوں کو ہیجڑہ (مخنث) بنانے پر پابندی لگا دی۔
انہوں نے جزیہ نام کا ٹیکس بھی لگایا تاکہ اس کی مملکت کو مکمل طور پر اسلامی ریاست تصور کیا جائے لیکن انہیں اس وقت شدید دھچکا لگا جب مکہ کے حکمران (جسے اشراف کہا جاتا ہے) جو کعبہ شریف نگران تھے نے اورنگ زیب کی حکومت کو اسلامی حکومت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا اورنگزیب کی طرف سے بھیجے گئے تحائف بھی واپس کردئے گئے۔ (جاری)