‘صلح کل’ کی پالیسی میں ‘دین الٰہی’ کا جوہر موجود تھا جسے اکبر نے نہ صرف مذہبی مقاصد کے لیے بلکہ عام سامراجی انتظامی پالیسی اور اپنی مذہبی رواداری کے ایک حصے کے طور پر اختیار کیا تھا
مغل حکمران جلال الدین اکبر 1542 میں ہندوستان کے صوبہ سندھ کے امر کوٹ کے علاقے راجپوتانہ میں پیدا ہوئے۔ یعنی وہ پیدائشی طور پر ہندوستانی تھے۔ چوں کہ ان کی پیدائش اور پرورش ہندوستان میں ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی مخلوط ثقافت کا اکبر پر ایسا اثر ہوا کہ اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے تمام مذاہب کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش شروع کر دی۔
اکبر نے ہندوستان کے مستقبل کو سب کے ساتھ مل جل کر رہنے سے منسلک کیا اور ہم وطنوں کے سامنے صلح کل (سب کے ساتھ امن اور ہم آہنگی) کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے ‘دین الٰہی’ کے نام سے ایک پہل کی اور ہندوستان میں سب سے پہلے فتح پور سیکری میں سرو دھرم سبھا کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی عبادت خانہ بنا کر ایک نئی مثال قائم کی گئی۔
انہوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ جمع کر مذہبی اتحاد قائم کرنے کی انوکھی کوشش کی۔ 580 سال قبل اکبر کی مذہبی اتحاد قائم کرنے کی اس کوشش کی مخالفت اور حمایت دونوں طرح کے ردعمل سامنے آئے تھے۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اکبر نے دنیا کے سامنے ایک نیا مذہب پیش کیا ہے، جب کہ کچھ مورخین کی رائے ہے کہ دین الہی کے ذریعے نئے مذہب کو متعارف کرانے کی بات غلط ہے۔
‘دین الٰہی’ کی تعبیر ایک الگ مذہب کے طور پر کرنا غلط
وکی پیڈیا میں دین الٰہی کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ "دین الٰہی سے متعلق ایک نیا مذہب ہونے کا نظریہ ایک غلط فہمی ہے جو بعد کے برطانوی مورخین کی طرف سے ابوالفضل کے کاموں کے غلط ترجمانی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
تاہم، یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ دین الٰہی کے جوہر پر مشتمل صلح کل کی پالیسی کو اکبر نے نہ صرف مذہبی مقاصد کے لیے بلکہ عام شاہی انتظامی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر اختیار کیا تھا اور اور مذہبی ہمدردی کی اپنی پالیسی کی بنیاد بنائی۔
1605 میں اکبر کی وفات کے وقت ان کی مسلم عوام کے درمیان عدم اطمینان کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے، اور حضرت عبدالحق (شیخ عبدالحق محدث دہلوی) جیسے عالم دین سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اکبر سے ان کے قریبی تعلقات برقرار رہے۔
دین الٰہی کی تردید
تاہم صوبہ بنگال کے قاضی اور مشہور مذہبی رہنما احمد الفاروق سرہندی نے اکبر کے دین الٰہی کے خیال کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے اسلام مخالف قرار دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بعض مسلم علمائے کرام کا خیال تھا کہ اکبر ایک نئے دین کی تشکیل دے رہے ہیں، جب کہ عام لوگوں کا خیال تھا کہ اکبر کی کوشش صرف اس بات کی تھی کہ عوام ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے مذہبی نظریات کو سمجھیں اور ان کا احترام کرنا سیکھیں۔
انہوں نے تمام مذاہب کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی تھی نہ کہ اختلاط کی۔ اکبر کی یہ کوشش فتح پور سیکری کی عظیم الشان عمارتوں سے آگے نہ بڑھ سکی، لیکن کم از کم ایسا ضرور ہوا کہ ہندوستان کے لوگوں کو پہلی بار سیکولرازم کے نقطہ نظر سے آشنا ہونے کا موقع ملا۔
اکبر کے دل میں صوفی بزرگوں کی عظمت
اکبر کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ صوفی بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے، انہوں نے اجمیر شریف میں خواجہ اجمیریؒ کے مزار پر متعدد بار حاضری دی اور فتح پور سیکری میں شیخ سلیم چشتیؒ کے مزار کے گرد پنچ محل کے نام سے ایک عمارت بھی بنوائی۔
کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر کو صوفی بزرگ شیخ سلیم چشتیؒ کی دعاؤں کی برکت سے اولاد نرینہ یعنی بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ اس لیے اکبر نے اپنے پہلے بیٹے کا نام سلیم رکھا۔ اکبر کے بعد ان کا بیٹا نورالدین محمد سلیم جہانگیر کے نام سے تخت پر بیٹھا۔
جہانگیر اور ایسٹ انڈیا کمپنی
جہانگیر کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں قدم رکھا اور ہندوستان میں قدم جمانے کے لیے جہانگیر کو انتہائی مہنگی غیر ملکی شراب پلا کر ان کا دل جیت لیا۔ جہانگیر کے دور میں پرتگالی فوج نے ہندوستانی زائرین سے بھرا ہوا رحیمی نامی جہاز کو یرغمال بنالیا لیا جس کے بعد جہانگیر نے پرتگالیوں کے زیر قبضہ شہر دمن کا قبضہ کرلیا اور ملک میں موجود تمام پرتگالیوں اور ان کے گرجا گھروں کو گرانے کا حکم دیا۔
جہانگیر کو اپنے بیٹوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اپنے بڑے بیٹے خسرو مرزا کو جیل بھیجنا پڑا اور پھر اپنے دوسرے بیٹے شہزادہ خرم (شاہجہاں) سے بھی لڑنا پڑا (اس بارے میں مزید تفصیلات اگلے حصے میں فراہم کی جائیں گی)۔
جہانگیر نے اس وقت کے شیعہ اور سنی علمائے کرام کو بھی پریشان کیا۔ شیعہ عالم قاضی نور اللہ شستری کو جھوٹے الزامات میں موت کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ اکبر نے انہیں قاضی القضاۃ کے عہدے سے نوازا تھا۔ دوسری طرف اس نے معروف سنی عالم دین احمد الفاروق سرہندیؒ کو کافی تشدد کا نشانہ بنایا تھا، یہاں تک کہ انہیں قید بھی کیا تھا۔
ویسے جہانگیر کو مذہب سے کم اور شراب، کباب اور شباب میں زیادہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے ہی انگریزوں کو ہندوستان میں پہلی فیکٹری لگانے کی اجازت دے کر مغل حکومت کی تباہی کی کہانی کا پہلا باب لکھا تھا۔ (جاری)