پیر, مارچ 27, 2023
Homeرائے’سنسد‘ دھرم کی اور پیغام قتل و غارت گری کا؟

’سنسد‘ دھرم کی اور پیغام قتل و غارت گری کا؟

اپنی گنگا جمنی تہذیب کے لئے مشہور ہندوستان جس خطرے سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے، آج وہی خطرہ خود اس کے سامنے ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا شاید ہی کسی نے تصور کیا ہوگا۔ کتنی آسانی سے اس ملک کی اصل روح کو نکالا جا رہا ہے۔ ہزاروں سال پرانی اقدار و روایات کو پامال کیا جا رہا ہے۔ کثرت میں وحدت کے تصور کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ عدم تحمل کا کھلے عام مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ قتل عام اور نسل کشی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں مذہبی امور کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے، ان کی عبادتوں میں خلل ڈالا جا رہا ہے۔ اور اس کا سب سے خطرناک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے حکمران یہ سب بالکل خاموشی سے دیکھ اور سن رہے ہیں۔ بالکل ایسے، جیسے شر پسندوں اور انتہا پسندوں کو در پردہ حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔ کیوں کہ یہ سب سلسلہ وار اور بہت منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے۔

دہلی سے لے کر ہری دوار تک اور ہری دوار سے لے کر رائے پور تک ہونے والی ’دھرم‘ کی ’سنسد‘ میں ملک کی اکثریت کو اقلیت سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ان کی نسل کشی کے لئے ہتھیار اٹھانے کا حلف دلوایا جا رہا ہے۔ نہ قانون اور عدالتوں کا خوف، نہ پولیس اور انتظامیہ کا کوئی ڈر۔ تو کیا اب یہ مان لیا جائے کہ ’سرو دھرم سنبھاؤ‘، ’واسودیو کٹمبکم‘، ’گنگا جمنی تہذیب‘ اور’اتتھی دیو و بھوا‘ جیسے الفاظ ہندوستان میں بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔

کوئی کارروائی نہ کرکے حکومتیں آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟

اس وقت سب سے زیادہ فکر ملک کے مستقبل کی ہے۔ جو لوگ اس ملک سے واقعی محبت کرتے ہیں، یہاں کی اقدار و روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ایک مہذب معاشرے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، وہ اس وقت عجیب سی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل و غارت گری اور ایک فرقہ کی نسل کشی کی بات کرنے والے اسی طرح کھلے عام گھومتے رہے اور بار بار اس کو دوہراتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب یہ ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا۔ دہلی، ہری دوار اور رائے پور میں زہر افشانی کرنے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہ کرکے حکومتیں آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟ یہی نہ کہ کوئی بھی کچھ کرتا اور کہتا رہے، اس کا کچھ نہیں بگڑنے والا ہے۔ کوئی کارروائی نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی نظر میں اب قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے نزدیک پولیس اور انتظامیہ اب بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔

ملک کے حساس اور باشعور لوگوں کا ردعمل

یعنی اب تک ہندوستان دوسرے ملکوں کی مثالیں دے کر انتہا پسندی اور شدت پسندی سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے، اس کے خطرات خود ہمارے سامنے ہیں۔ زیادہ دور نہ جا کر ہم اپنے پڑوسی ملک پاکستان کا حشر دیکھ سکتے ہیں۔ مذہبی جنون پر سوار کچھ طاقتوں نے دنیا بھر میں اس کی کیسی شبیہ پیش کی ہے۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے غلبہ کے سبب ناکامی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ لہذا اگر ہمارے ملک میں بھی انتہا پسند طاقتوں پر لگام نہیں لگائی گئی تو ہمارا مستقبل بھی تاریک ہی نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھیرے دھیرے ہی صحیح ان شدت پسندوں اور تخریب کاروں کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ملک کے حساس اور باشعور لوگوں کے ذریعہ اس پر زبردست ردعمل کے اظہار کے بعد مین اسٹریم میڈیا کا ایک طبقہ بھی اب اس پر بحث کرنے لگا ہے۔

ہری دوار کی دھرم سنسد پر سخت تنقید

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ہندتوادیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں متنبہ کیا ’ہندتوادی ہمیشہ نفرت اور تشدد پھیلاتے ہیں، جس کی قیمت ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی چکاتے ہیں، لیکن اب اور نہیں!‘۔ سابق آرمی چیف وید پرکاش ملک نے بھی ہری دوار کی دھرم سنسد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا کہ اس سے نہ صرف عوامی ہم آہنگی متاثر ہوگی بلکہ قومی سیکیورٹی پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا۔

سب سے پہلے اپنی اشتعال انگیزی کے لئے مشہور سدرشن چینل کے مالک سریش چوہانکے نے ۱۹؍ دسمبر کو ملک کی راجدھانی میں ہندو یووا واہنی کے ایک پروگرا م میں لوگوں کو حلف دلایا تھا کہ وہ ہندو راشٹر کے قیام کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، وہ مریں گے بھی اور ماریں گے بھی۔ اسی طرح ہری دوار میں منعقد سہ روزہ دھرم سنسد میں نفرت کے پجاری یتی نرسنگھا نند نے مسلمانوں کے قتل عام کیلئے تلواروں کو ناکافی قراردیتے ہوئے اپنے حامیوں پر زور دیا تھا کہ وہ بہتر ہتھیار خریدیں۔ اس سہ روزہ دھرم سنسد میں سادھوؤں کے بھیس میں لوگ مسلمانوں کو قتل عام کی کھلی دھمکی اور ان کے صفائے کی متعدد شر پسندانہ تجویز پیش کرتے رہے، لیکن نہ تو ریاستی پولیس نے کوئی کارروائی اور نہ ہی مرکزی حکومت کے ذریعہ اس پر بیان آیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اٹھایا گیا سوال

دہلی، ہری دوار اور رائے پور میں منعقد دھرم سنسد میں مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکی دینے والے ملزمین ہنوز آزاد ہیں اور پولیس نے ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی۔ آخر کارروائی ہو بھی تو کیسے، کیوں کہ ہری دوار کی دھرم سنسد میں جس سوامی پربودھا نند نے ہندوستان کے مسلمانوں کی میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح نسل کشی اور صفائے کی تجویز پیش کی تھی، اسی سوامی کی ایک تصویر بھی وائرل ہوئی، جس میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی ان کے پاؤں چھو رہے ہیں۔ اسی لئے سوشل میڈیا پر بھی سوال اٹھایا گیا کہ نفرت کے جس پجاری کے پاؤں خود ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ چھو رہا ہے، آخر اس کے خلاف کارروائی کیسے ہوگی۔

دھرم سنسد میں 20 لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی

دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور کم از کم ۲۰؍ لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دینے والی سادھوی بھی چینلوں پر اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے اس پر قائم نظر آئی۔ رائے پور میں کالی چرن نامی جس بھگوا دھاری نے نہ صرف بابائے قوم مہاتما گاندھی کے بارے میں بد کلامی کی، انھیں غدار بتایا گیا، بلکہ گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی قصیدہ خوانی بھی کی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام واقعات ان لوگوں کے ذریعہ انجام دئے جا رہے ہیں جو اکثریتی طبقے سے ہیں اور مذہبی چولا اوڑھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم مودی ان سب پر خاموش کیوں؟

امن پسند اور انصاف پسند شہری اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سوال کر رہے ہیں کہ آخر معمولی واقعات پر ٹویٹ کرنے والے وزیر اعظم مودی ان سب پر خاموش کیوں ہیں؟ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کھڑا کر دینے والے نیوز چینل کیوں خاموش ہیں؟ اتنے خطرناک منصوبوں پر عدالتیں از خود نوٹس کیوں نہیں لے رہی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کریں گے تو پائیں گے کہ واقعی شر پسندوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے پیچھے کوئی مقصد ہے۔ اس سلسلہ میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم رہنے والے پروفیسر اپووروانند کا کہنا ہے کہ ’’جو مودی بالواسطہ طور پر اور چالاکی سے کہہ رہے ہیں، وہی بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ’دھرم سنسد‘ میں کہا گیا۔ یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو کہ اس دھرم سنسد اور بی جے پی کی سیاست میں رشتہ کیا ہے، وزیر اعظم مودی نے گجرات کے ایک گرودوارے میں بولتے ہوئے کہا ’سکھ گروؤں نے جن خطروں سے آگاہ کیا تھا، وہ آج بھی اسی شکل میں موجود ہیں‘‘۔

مودی سرکار کی خاموشی ایک بھیانک اور تاریک مستقل کی طرف اشارہ

اسی طرح سماجی کارکن یوگیندر یادو نے اس کو ملک سے حقیقی دشمنی قراردیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’میڈیا اس پر خاموش ہے، جبکہ پولیس نے کوئی گرفتاری نہیں کی، ایسی سیاسی قیادت جو اس کو فروغ دے رہی ہے وہ پوری طرح اس ملک کو تباہ کرنے میں ملوث ہے۔ وہ نفرت انگیزی پر مبنی جرائم کو طاقت دے کر قانون کی حکمرانی کو سبوتاژ کررہی ہے۔‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی، ہری دوار اور رائے پور کی ’دھرم سنسد‘ میں جو زہر افشانی کی گئی، اس پر بی جے پی، آر ایس ایس اور مودی سرکار کی خاموشی ایک بھیانک اور تاریک مستقل کی طرف اشارہ ہے۔ پولیس، انتظامیہ اور حکمرانوں نے ضرور مایوس کیا ہے، لیکن ملک کے مستقبل کی خاطر حساس اور سنجیدہ طبقہ کو سامنے آنا ہو گا۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments