بوہرہ، سید، پٹھان، مرزا، مغل، صدیقی، فاروقی، عثمانی اور انصاری تقریبا سبھی عرب، عراق، ایران، ترکی اور افغانستان سے آئے تھے جبکہ ذات پات کے نظام سے بچنے کے لئے دلتوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔
جیسا کہ میں نے پہلی قسطوں میں ذکر کیا ہے کہ شمالی ہند کے مسلمان زمینی راستوں سے پرامن طور پر ساحلی علاقوں میں بحری جہازوں کے ذریعے آ رہے تھے اور ہندوستان میں ان کی آمد غوری اور غزنوی کے حملوں سے بہت پہلے شروع ہو گئی تھی۔ اس سلسلے میں بوہرہ برادری کے بارے میں کچھ معلومات شیئر کرنا ضروری ہے۔
اسماعیلی مسلمان اور بوہرہ طبقہ
دسویں صدی میں ہندوستان کو اپنا مسکن بنانے والوں میں اسماعیلی مسلمان بھی شامل ہیں۔ اب ہم سب انہیں بوہرہ طبقہ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ لوگ شیعہ طبقے کا حصہ تھے لیکن شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق کی شہادت (765 عیسوی) کے بعد ان کے بیٹوں کی جانشینی پر شیعہ برادری میں اختلافات ہوگئے۔ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ کاظم کی وجہ سے ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جسے اسماعیلی کہا گیا۔ اس طبقے کے لوگوں کو اتنی طاقت ملی کہ ان لوگوں نے 909ء سے 1171ء تک مصر سمیت افریقہ کے بڑے حصوں پر حکومت کی جسے تاریخ میں فاطمی سلطنت کہا جاتا ہے۔
اسماعیلی طبقے کے لوگ ہندوستان بہت آتے تھے، وہ عرب کے ساتھ تجارت کے لئے گجرات کی بندرگاہوں پر اترتے تھے۔ یہ لوگ بھی دسویں صدی میں ہندوستان میں رہنے لگے اور گجرات کے شہر سورت کو اپنا مرکز بنایا۔
غوری کے تصادم سے 200 سال قبل مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا مسکن بنایا
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ بوہرہ طبقے کے 26ویں مذہبی رہنما داؤد بن عجب شاہ کا انتقال 997ء میں ہوا، اس کے بعد ان کے جانشین برہان الدین قطب شاہ جو ہندوستان میں مقیم تھے، بوہرہ برادری کے 27ویں مذہبی رہنما بنے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان غوری اور پرتھوی راج چوہان کے تصادم سے 200 سال پہلے ہندوستان کو اپنا گھر بنا چکے تھے۔ 1171ء میں جب فاطمی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو اس کے بعد بوہرہ طبقے کو مصر اور افریقی ممالک سے ہجرت کرنی پڑی اور اسماعیلی طبقے کو ہندوستان میں ووہرہ (سوداگر) کا نام ملا جو بعد میں بوہرہ کہلایا۔
بوہرہ طبقہ نے کسی بھی ہندو کا تبدیلیٔ مذہب نہیں کرایا
بوہرہ طبقے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ لوگ کسی کو اپنے مذہب میں شامل نہیں ہونے دیتے تھے۔ کوئی بھی شخص اپنا مذہب تبدیل کرکے بوہرہ طبقے میں شامل نہیں ہو سکتا۔ یہ اپنے آپ میں ایک دلیل ہے کہ بہت سے مسلمان ہندوستان آئے لیکن انہوں نے کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا۔
غیر انسانی ذات پات کے نظام سے بچنے کے لیے دلتوں نے اسلام قبول کیا
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سنگھ پریوار کی طرف سے مسلسل کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور سب ایک ہی آباؤ اجداد کی اولاد ہیں، لیکن اس بیان کے پیچھے جو نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر یہ لیبل لگایا جاتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بوہروں کے علاوہ سید، پٹھان، مرزا، مغل، صدیقی، فاروقی، عثمانی اور انصاری ان میں سے تقریبا سبھی عرب، عراق، ایران، ترکی اور افغانستان سے آئے ہیں۔
ہاں ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے اس نسل انسانی کے حوالے سے ایک جیسا ہے جو حضرت نوح (جسے ہندوستان میں منو کہا جاتا ہے) کے طوفان سے بچانے کے بعد دوبارہ آباد ہوا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے ہندوستانیوں نے اسلام قبول کیا اور ان میں سے زیادہ تر دلت تھے، کیونکہ اس وقت پسماندہ طبقات کی حالت اتنی قابل رحم تھی کہ انہیں ہندو یا انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں دلتوں نے اسلام قبول کیاتھا۔ ظاہر ہے کہ انہیں مسلمانوں نے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ سماجی امتیاز نے انہیں مجبور کیا تھا۔
دستور ہند نے دلتوں کو ان کا حق دیا
یہ خوشی کی بات ہے کہ دلتوں کی اہمیت کو سیاسی جماعتوں اور اعلیٰ طبقے کے لیڈروں نے جمہوریت کے آنے کے بعد سمجھا اور آئین ہند میں بھی بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی کوششوں سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک میں کمی آئی۔ بہت حد تک انہیں شہری حقوق بھی ملے اور معاشرے میں بھی ان کے بہت سے لوگ سر اٹھا کر جینے کا موقعہ ملا۔
خیر ان باتوں کو ایک طرف چھوڑ کر ہم اپنے مسئلے کی طرف لوٹتے ہوئے وہ باتیں آپ کے سامنے رکھتے ہیں کہ ملک میں تلخی نہیں پھیلنی چاہئے بلکہ آپسی پیار محبت کو فروغ ملنا چاہئے۔ اگلے حصے میں بھی ہم اس موضوع پر کچھ اہم شواہد پیش کریں گے اور بتائیں گے کہ مسلمانوں کو اس ملک سے اتنی محبت کیوں ہوئی کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر اس خوبصورت ملک کو اپنا مسکن بنانے لگے۔ (جاری)