منگل, مارچ 28, 2023
Homeقومیشہریت ترمیمی قانون اور اس کے خلاف تحریک کے دو سال بعد...

شہریت ترمیمی قانون اور اس کے خلاف تحریک کے دو سال بعد کیا اب یہ قانون واپس ہوگا؟

زرعی قوانین کی واپسی سے یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اسی لئے کسانوں کو اتنی لمبی تحریک چلانی پڑی۔ اسی طرح شہریت ترمیمی قانون بھی حکومت کا ایک غلط فیصلہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت جلد یا بدیر اسے واپس لے کر ملک کی اقدار و روایات اور قانون کی بالا دستی کو قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔

ڈاکٹر یامین انصاری

شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کے خلاف احتجاج کو دو سال مکمل ہو گئے۔اس احتجاج کا سلسلہ اگرچہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا، لیکن بعد میں مختلف سماجی تنظیموں اور یونیورسٹیوں سے ہوتا ہوا احتجاج کا یہ سلسلہ ’شاہین باغ‘ تک پہنچا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریک کورونا کی وبا کے سبب اگرچہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکی، مگر آئین کے تحفظ اور ہندوستانی اقدار و روایات کی بقا کے لئے چلائی جانے والی اس تحریک نے اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے جدو جہد کے نئے راستے کھول دئے۔

’شاہین باغ تحریک‘ کو بدنام کرنے اور ختم کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے گئے، ظلم و بربیت اور سازشوں کے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ ٹھیک اسی طرح، جیسے ہم نے کسان تحریک کے دوران دیکھا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کسان تحریک کو شاہین باغ سے تحریک اور تقویت ملی۔ یقیناً سی اے اے مخالف یا شاہین باغ تحریک کے تجربات کا کسان تنظیموں کو فائدہ ہوا اور انھوں نے اپنی تحریک کو انجام تک پہنچایا۔

کیا سی اے اے مخالف تحریک دوبارہ شروع ہوگی؟

اب کسان تحریک کی کامیابی کے بعد بہت سے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ جیسے کہ کیا اب سی اے اے مخالف تحریک دوبارہ شروع ہوگی؟ کیا سی اے اے کے مخالفین مودی سرکار کو جھکانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ جس طرح ایک مضبوط حکومت نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لیا، اسی طرح شہریت ترمیمی قانون کو بھی واپس لیا جائے گا؟ اور سب سے بڑا سوال کہ جس طرح کسان تحریک کے دوران لگے مقدمات کو واپس لیا گیا ہے، کیا سی اے اے مخالف تحریک میں شامل لوگوں پر عائد الزامات کو بھی واپس لیا جائے گا؟ انہی سوالوں کی روشنی میں اس تحریک کو شروع ہوئے دو سال مکمل ہونے پر یہ مضمون قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک میں شامل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے سبب احتجاج کا سلسلہ بھلے ہی منقطع ہو گیا تھا، لیکن یہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ مختلف شکلوں میں یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔ پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر شہریت ترمیمی قانون کیا ہے اور اس کی مخالفت کیوں ہوئی؟ شہریت (ترمیم) ایکٹ 2019 ایک قانون ہے، جس کے ذریعہ 1955 کے شہریت قانون کو ترمیم کرکے یہ التزام کیا گیا کہ31 دسمبر2014 سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، بودھ، سکھ، جین، پارسی اور عیسائیوں (مسلمان نہیں) کو ہندوستان کی شہریت دی جاسکتی ہے۔ اس بل میں ہندوستانی شہریت دینے کے لئے ضروری 11 سال ہندوستان میں رہنے کی شرط میں بھی نرمی کی گئی۔ اس مدت کو صرف پانچ سال ہندوستان میں رہنے کی شرط میں تبدیل کر دیا گیا۔

شہریت ترمیمی قانون کے ضابطے ابھی تیار نہیں

شہریت ترمیمی بل کو لوک سبھا نے10 دسمبر 2019 کو اور 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا نے منظور کر لیا تھا۔ صدر جمہوریہ ہند نے 12 دسمبر کو اس پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ اس طرح یہ متنازع بل ایک قانون بن گیا۔ یہ قانون 10 جنوری 2020 سے نافذ العمل بھی ہو گیا۔ 20 دسمبر 2019 کو پاکستان سے آنے والے 7 پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت دے کر اس قانون کو نافذ کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ بنائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے ضابطے ابھی تک تیار نہیں ہوئے ہیں۔

جولائی 2021 میں پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ سی اے اے کو 12 دسمبر 2019 کو نوٹیفائی کیا گیا تھا، 2020 میں یہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لیکن لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کمیٹیوں سے اس قانون کے تحت ضابطے تیار کرنے کے لئے جنوری 2022 تک کا وقت مانگا گیا ہے۔ اب اسے شاہین باغ کی تحریک کا اثر مانا جائے یا حکومت کی مجبوری، لیکن ایسا مانا جا رہا ہے کہ فی الحال حکومت نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمراں جماعت کا مقصد پڑوسی ملکوں کے غیر مسلموں کی ہمدردی سے زیادہ ملک میں فرقہ وارانہ خطوط پر اپنی سیاست چمکانا تھا۔ جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ اب یہ سوال کون پوچھے کہ آپ نے اس قانون کے تحت پڑوسی ملکوں میں ستائے گئے کتنے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دی؟ ہاں، حکومت نے یہ ضرور بتایا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران 6 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی۔

سی اے اے مخالف تحریک

سی اے اے مخالف تحریک کا سلسلہ شمال مشرق سے نکل کر جب قومی دارالحکومت دہلی پہنچا، تو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کی نگاہیں اس احتجاج کی جانب مرکوز ہو گئیں۔ ہر کوئی یہ دیکھ کر انگشت بدنداں تھا کہ جن مسلم خواتین کو گھر کی چہار دیواری تک محدود سمجھا جاتا تھا، حقیقی معنوں میں انہی خواتین نے اس احتجاج کی قیادت کی۔ چاہے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر جامعات کی طالبات ہوں، یا پھر شاہین باغ کی تین دادیوں کی رہنمائی میں 101 دنوں تک دھرنا دینے والی ہزاروں گھریلو خواتین۔ دسمبر اور جنوری کی سرد ترین راتوں میں جب کوئی اپنے ذاتی کام سے بھی گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہتا، ان خواتین نے ملک اور قوم کے مستقبل کی خاطر اپنے نرم اور گرم بستروں کے ساتھ اپنے سکون کو بھی قربان کر دیا۔

ہندوستان کی تاریخ میں عدیم المثال مظاہرے

جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے پورے ملک اور دنیا میں اس تاریخی تحریک کو جنم دیا۔ پہلے 13 دسمبر اور پھر 15 دسمبر کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہوئے احتجاج میں پولیس کی بربریت نے جیسے جامعہ کے طلبہ کے حوصلوں کو نئی اڑان دے دی۔ جامعہ کے بعد اے ایم یو، جے این یو، دہلی یونیورسٹی، ممبئی، کولکاتہ، چنئی، احمد آباد وغیرہ کی مختلف یونیورسٹیوں، آئی آئی ٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں عدیم المثال مظاہرے اور احتجاج ہوئے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاید ہی اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنے لمبے عرصے تک اس طرح کے مظاہرے ہوئے ہوں۔ کسان تحریک اگرچہ ایک سال سے زائد چلی، لیکن اس کا دائرہ بہت محدود تھا۔

واضح رہے کہ 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے احتجاج کر رہے طلبہ پر زبردست لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس دوران بڑی تعداد میں طلبہ اور کچھ اسٹاف کے لوگ زخمی ہو گئے۔ پولیس کی اس زیادتی کے خلاف 15 دسمبر کو جامعہ کے طلبہ بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا، لیکن اس دوران ایک بار پھر پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور یہ احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر گیا۔

شاہین باغ تحریک کا آغاز کیسے ہوا؟

واقعہ سے ناراض کچھ طلبہ جامعہ ملیہ میں دھرنے پر بیٹھ گئے، جبکہ کچھ لوگوں نے جامعہ سے کچھ فاصلے پر واقع شاہین باغ میں دھرنا شروع کر دیا۔ اس میں مقامی لوگ بھی شامل ہوئے۔ آخر کار شاہین باغ کا یہ دھرنا ایک بڑی تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے بعد فروری 2020 میں منصوبہ بند طریقے سے شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھا۔ جس کے بعد تحریک میں شامل متعدد کارکنان کو فساد میں ماخوذ کیا گیا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں اکثر کارکنان کے خلاف یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ خود حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ 2020 میں دہلی پولیس نے یو پی اے کے تحت کل 9 کیس درج کئے، جن میں 34 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو ضمانت مل گئی اور کچھ ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔ امید ہے کہ ان لوگوں کو بھی جلد انصاف ملے گا اور اپنے جمہوری حق کے لئے جد و جہد کرنے والے یہ لوگ جیل سے باہر آئیں گے۔

زرعی قوانین کی واپسی سے یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اسی لئے کسانوں کو اتنی لمبی تحریک چلانی پڑی۔ اسی طرح شہریت ترمیمی قانون بھی حکومت کا ایک غلط فیصلہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت جلد یا بدیر اسے واپس لے کر ملک کی اقدار و روایات اور قانون کی بالا دستی کو قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔ فی الحال قانون واپس ہوگا یا نہیں، تحریک دوبارہ شروع ہوگی یا نہیں، اس سوال کا جواب ندا فاضلیؔ کے اس شعر میں تلاش کر سکتے ہیں۔

کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments