ہندو مسلم تنازعہ: کتنا مذہبی کتنا سیاسی (پہلی قسط)

اس سیریز کے ذریعہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان نفرت کو کم کیا جائے۔ اگر آپ کو میری مہم پسند آئے تو مضمون کو شیئر ضرور کریں … دوسرا حصہ کل پڑھیں۔

تحریر: شکیل حسن شمسی

ملک میں کتنی نفرت پھیلائی جا رہی ہے اور مذہب کے نام پر کس قدر کشیدگی پھیلا کر سیاسی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے یہ سب کچھ آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ ایسی صورت حال میں، یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ ہندو مسلم کشیدگی پیدا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو ناکام بنائیں اور اس سچ کو سب کے سامنے پیش کریں جس سے دونوں طبقات کے درمیان فاصلے کم ہوں۔

میں سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے لوگوں کو قریب لانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب ایک ہی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارے باپ دادا ایک جیسے تھے۔ میں لوگوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مذہب در اصل انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے آیا لیکن اب مذہب کو انسانوں کو مارنے یا تشدد کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خاص طور پر بے حد نفرت پھیلائی جا رہی ہے جبکہ ان دونوں ہی طبقات کا رشتہ ایک ہی عظیم انسان سے ملتا ہے۔

اس کالم کے ذریعہ میں ہندوستان کے شہریوں کو یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ ہندو اور مسلم طبقات ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انگریزی لفظ ‘منوشیہ’ (انسان) کہاں سے ماخوذ ہے؟ کہا جاتا ہے کہ لفظ منوشیہ منو اور ششیہ (شاگرد) سے بنا ہے، پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ منو کون تھا اور اس کے ششیہ (شاگرد)  کون تھے؟ یہ لفظ کیسے شروع ہوا یہ جاننے کے لیے ہمیں ”سیلاب کی کہانی” پڑھنی ہوگی۔

ہندوستانی مذہبی نصوص کے مطابق ہزاروں سال پہلے اس دنیا میں ایک خوفناک سمندری طوفان آیا تھا، جس کی وجہ سے پوری زمین ڈوب رہی تھی، اس بات کا ہر ممکن امکان تھا کہ تمام جانور زمین سے مٹ جائیں۔ ایسی ہیبتناک صورتحال میں، ہمارے آبا و اجداد میں سے ایک شخص منو جی نے تمام جانداروں کو بچانے کے لیے ایک بہت بڑی کشتی بنائی اور اپنے ششیوں (پیروکاروں) اور ہر نسل کے جانوروں کے ایک جوڑے کو لے کر کشتی میں بیٹھ گئے، اور کافی عرصے بعد جب پانی کم ہوا تو منو جی کے ششیوں (پیروکاروں) نے دنیا کو دوبارہ آباد کیا تو تمام شہریوں کو نسل انسانی کا نام ملا کیونکہ یہ دنیا منو جی کے ششیوں (پیروکاروں) نے آباد کی تھی۔

خاص بات یہ ہے کہ سیلاب کی یہ کہانی صرف ہندوؤں کی مذہبی تحریروں میں نہیں لکھی گئی ہے، بلکہ یہی کہانی مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے مذہبی متن میں بھی لکھی گئی ہے، فرق صرف اتنا ہے ایک بڑی کشتی بنا کر وہ عظیم انسان جس نے تمام پرجاتیوں کو بچایا اسے ہندوستانی زبانوں میں رشی منو کہا گیا ہے جبکہ انگریزی میں نوح اور عربی زبان میں Noah کہا گیا۔

تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ یہ تینوں نام ایک ہی عظیم انسان کے ہیں، مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہندوستان کے لوگ قدیم دور میں اس عظیم انسان کو مہان (عظیم) نوح کہتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ نام صرف منو بن گیا۔ فرانسیسی محقق ابے جے اے ڈوبوس (جسے کرناٹک کے لوگ دادا سوامی بھی کہتے ہیں) نے اپنی کتاب Hindu Manners Customs and Ceremonies  (ہندو آداب رسوم و رواج) میں لکھا ہے کہ "ایک معروف شخص جن سے ہندو بہت وعقیدت رکھتے ہیں اور جسے وہ مہا ناؤ (بڑی کشتی) کے نام سے جانتے ہیں اس کشتی میں سات بابا بھی سوار تھے جو طوفان کی تباہی سے بچ گئے تھے۔ مہانوو دو الفاظ کا مجموعہ ہے، مہا کا مطلب ہے وسیع اور نوو کا مطلب ہے نوح۔

مسلم اسکالر مولانا شمس نوید عثمانی نے بھی اپنی کتاب ‘اگار اب بھی ہم نہ جاگے تو’ میں لکھا ہے کہ حضرت نوح اور رشی منو ایک ہی شخص کے نام تھے۔

انیرودھ جوشی شتایو نے ویب دنیا میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی لکھا ہے کہ "راجا منو کو ہی حضرت نوح سمجھا جاتا ہے۔ نوح یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے پیغمبر ہیں۔ اس پر تحقیقات بھی ہوئی ہیں۔ سیلاب کا تاریخی واقعہ دنیا کی تمام تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔” بدلتی ہوئی زبان اور طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس واقعہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ منو کی یہ کہانی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں ‘حضرت نوح کی کشتی’ کے نام سے بیان کی گئی ہے۔

کیا نام اور قصے میں یہ معمولی فرق اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہم سب کی جڑیں ایک مقام پر ملتی ہیں؟ واضح رہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں جسے سیلاب کہا جاتا تھا، مسلمان اسے طوفان نوح کہتے ہیں اور انگریزی میں اسے Deluge کہتے ہیں، پھر سوچیں کہ آج منو کے شاگردوں میں سے ایک کی اولاد دوسرے کی اولاد پر تشدد کرنا ان کا مذہب ہے منو کا شاگرد آپ کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے سے نفرت کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ہم سب وہی نہیں ہیں جو منو کی اولاد ہونے کی وجہ سے انسان کہلاتے تھے؟

اس سیریز کے ذریعہ میری کوشش ہوگی کہ ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان نفرت کو کم کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو میری یہ کوشش پسند آئے گی۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ کو میری مہم پسند آئے تو مضمون کو شیئر ضرور کریں … اور دوسرا حصہ کل پڑھیں۔