مسلمان کے آپسی اختلافات کی وجہ سے پہلے برطانوی سامراج نے مظالم ڈھائے، پھر روس اور امریکہ مسلمانوں پر مسلط ہوئے اور اب شاید چین بھی اسی راستے پر ہے۔
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنی تمام تر توانائی باہمی اختلافات، خلفشار اور جنگ و جدال میں صرف کر دی۔ جس کے نتیجے میں پہلے برطانوی سامراج نے ظلم و جبرکی داستان رقم کی، پھر روس اور امریکہ مسلمانوں پر مسلط ہوئے اور اب حالات بتا رہے ہیں کہ چین بھی اسی راستے پر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر کے مسلمان اپنے سب سے خراب دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سب سے زیادہ شکار ہونے کے باوجود دہشت گردی کا الزام بھی وہ اپنے ہی سر پر لے کر گھوم رہے ہیں۔ اگر موجودہ حالات اور اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو تعداد اور اقتصادی وسائل کے اعتبار سے برتری رکھنے کے باوجود دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مسلسل عتاب کا شکار ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس کی سب سے بنیادی وجہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور عوام الناس کی جذباتی جبلّت ہے۔
مسلمان اوج ثریا پر جانے کے بجائے پستیوں کی جانب
بے شمار قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مسلم حکمرانوں نے اپنے افعال و کردار سے ذلت و رسوائی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ اپنی ذاتی مفادات، باہمی چپقلش، دنیاوی عیش و عشرت اور منصب و عظمت کی چاہ نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ مسلمان اوج ثریا پر جانے کے بجائے پستیوں کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عرب سے لے کر مغرب تک اور چین سے لے کر یوروپ تک مسلمانوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں۔ آج دنیا میں جو جب چاہتا ہے مسلمانوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ جہاں چاہتا ہے انہیں تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ کیا حکمراں، کیا رعایا، سب کی حالت زار پر بس کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنی تمام تر توانائی باہمی اختلافات، خلفشار اور جنگ و جدال میں صرف کر دی۔ جس کے نتیجے میں پہلے برطانوی سامراج نے ظلم و جبر کی داستان رقم کی، پھر روس اور امریکہ مسلمانوں پر مسلط ہوئے اور اب حالات بتا رہے ہیں کہ چین بھی اسی راستے پر ہے۔ چین کے مسلمانوں پر مظالم کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ اس سے متعلق خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں، جو وہیں تک محدود رہ جاتی ہیں۔
چینی مسلمانوں کی بد قسمتی یا مسلم حکمرانوں کی بے حسی
اسے چینی مسلمانوں کی بد قسمتی کہیں یا عالم اسلام کی بے حسی کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تو آواز بلند کی جاتی ہے، لیکن چینی مسلمانوں پر مسلم حکمراں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ چین کی داداگیری سے پوری دنیا عاجز ہے، لیکن یہاں کے مسلمانوں اور اقلیتوں پر ہونے والے چینی حکومت کے مظالم اب کوئی راز کی بات نہیں۔ چین نے صدر شی جن پنگ کے دور میں اقلیتوں کو ان کی مذہبی شناخت ختم کرکے چینی تہذیب و ثقافت میں رنگنے کا کام شدت کے ساتھ ہوا ہے۔ حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے پر آمادہ ہے۔
حال ہی میں چین نے مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کو تباہ کرنے کی مہم تیز کر دی ہے اور مساجد سے گنبد اور مینار ہٹائے جا رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چین نے یہ حکمت عملی براہ راست سوویت یونین سے اختیار کی ہے، جس کے نتیجے میں اقلیتوں کو بہت کم مذہبی آزادی دی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سنکیانگ صوبے کی تقریباً سات سو سال پرانی مسجد ڈونگ گوان چینی جبر کا تازہ ترین شکار ہوئی ہے۔ یہی نہیں صوبہ سنکیانگ کے علاقے آتوش میں ایک مسجد کے انہدام کے بعد اس کی جگہ عوامی بیت الخلا بنا دیا گیا ہے۔
چین مساجد سے میناروں اور گنبدوں کو ختم کرنے میں مصروف
چینی حکومت کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ مساجد کو ’چینی‘ بنانا چاہتی ہے، تاکہ وہ بیجنگ کے تیانمن چوک کی طرح نظر آئے۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی، حکومت کی جانب سے مقامی لوگوں کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ میناروں اور گنبدوں کو توڑنے کے بارے میں کوئی بات نہ کریں۔
یہ ایک جگہ کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ چین کی حکومت پورے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مساجد سے میناروں اور گنبدوں کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گنبد اور مینار غیر ملکی مذہبی اثر و رسوخ کی علامت ہیں۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو مزید ’روایتی چینی مسلمان‘ بنانے کے لیے اسے منہدم کر رہے ہیں۔ چین میں یہ مہم ایک ایسے وقت میں تیز کی گئی ہے جب چین ہی نہیں پوری دنیا میں اسلاموفوبیا بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نومولود بچوں کا نام محمد رکھنے پر حکومتی سطح پر پابندی عائد
در اصل اس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چین کے موجودہ حکمراں اب چینی تہذیب و ثقافت کے نام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی مہم کے تحت سعودی یا عربی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے مساجد سے گنبد و مینار ہٹا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے چین سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ چین کے مسلمانوں کو ان کی مذہبی رسومات سے روکا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن پاک کی تلاوت، نماز پر پابندی، نومولود بچوں کا نام محمد رکھنے پر حکومتی سطح پر پابندی عائد کر دی گئی، بلکہ مسلمانوں کو حرام اشیاء کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ یقیناً ایک طرف جہاں مذہبی استحصال ہے، وہیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس سب کے باوجود دنیا کی خاموشی بہت سارے سوالات پیدا کرتی ہے۔
چین میں مسلمانوں کی آبادی
اس پورے قضیہ کو سمجھنے کے لئے تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بھی ضرورت ہے۔ فی الوقت سرکاری طور پر چین میں ہوئی مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ پانچ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ایغور مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ غیر سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چین میں چھ تا آٹھ کروڑ کے مابین مسلمان بستے ہیں۔ نیم خود مختار چینی علاقے سنکیانگ میں آباد ایغور ترک نسل سے ہیں۔ یہ آبادی کے لحاظ سے (ترک، آذر بائیجانی، ازبکستانی اور قازقستانی ترکوں کے بعد) چوتھی بڑی ترک قوم ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ترکوں اور چینیوں کے ڈی این اے کے موازنے سے حال ہی میں یہ حیرت انگیز اور دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ ترک نسل کے اجداد بھی چینی تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکوں کے اجداد پانچ ہزار سال قبل شمال مشرقی چین میں رہتے بستے تھے۔ دو ہزار قبل مسیح میں مانچوریا میں قحط پڑ گیا۔ تبھی بہت سے چینی منگولیا ہجرت کر گئے۔ وہاں انھوں نے خانہ بدوشی اختیار کر لی اور مویشی پالنے لگے۔ منچورین چینیوں اور منگولین قوم کے اختلاط سے ایک نئی نسل نے جنم لیا جسے بعد ازاں ترک کہا گیا۔ جو ترک خاندان جنوبی سنکیانگ میں آباد ہوئے، انھیں ایغور کہا گیا۔
ارطغرل کی مسلم حکمرانوں کو متحد کرنے کی کوشش
اسی طرح وسطی ایشیا سے لے کر اناطولیہ (ترکی) تک بسنے والے ترک خاندان اپنے اپنے علاقوں کی مناسبت سے مختلف ناموں سے جانے گئے۔ جب دین اسلام وسطی ایشیا پہنچا تو دھیرے دھیرے ترک اس نئے دین کے شیدائی بن کر مسلمان ہو گئے۔ ایغوروں کی اکثریت نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ جب چنگیز خان کی زیر قیادت منگول عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو ایک ترک شہزادے، جلال الدین خوارزم شاہ نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا اور مختلف معرکوں میں شکست دی۔ بعد ازاں اوغوز ترک قبیلے کے ایک سردار ارطغرل نے بھی مسلم حکمرانوں کو متحد کرنا چاہا تو انھیں جزوی کامیابی ملی۔ انھوں نے بہرحال سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ضرور ڈال دی۔ اس سلطنت کے زوال کی اہم وجوہات بھی باہمی اختلافات، خلفشار اور جنگ و جدال ہی ہیں۔
بہرحال، ہمارے اسلاف کی درخشاں داستانِ شجاعت یقیناً قابل رشک ہے، مگر ہم اپنے درخشاں ماضی اور عظمت رفتہ کا حوالہ دے کر آج کی دنیا کا مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی ہمیں موجودہ حالات میں مایوس اور ماتم کناں ہونے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی توانائی تعلیم اور اقتصادی ترقی پر صرف کریں۔ ہم دنیا کے ساتھ اور سینہ سپر ہو کر اسی وقت چل سکتے ہیں جب تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کو اپنا ہدف بنائیں۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]
مضمون میں پیش کئے گئے آراء و افکار سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں