منگل, مارچ 28, 2023
Homeتعلیمبچوں کی تعلیم پر کورونا وبا کا اثر اور ان کے "مستقبل"...

بچوں کی تعلیم پر کورونا وبا کا اثر اور ان کے "مستقبل” میں غیر یقینی صورتحال

کورونا کی وبا سے پورا نظام زندگی درہم برہم ہے۔ بچوں کی تعلیم پر اس کا کچھ زیادہ ہی اثر ہوا ہے، بلکہ اس وبا کے سبب بچوں کی زندگی کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ اب اس کی تیسری لہر کی آہٹ سے متنبہ کیا جا رہا ہے، لیکن اسکول بھی کھولے جارہے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

کورونا کی وبا کے اس زہریلے اور مفلوج وقت میں ہر بچے کے والدین اور سرپرست اس کی تعلیم تربیت کے تئیں فکر مند نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جس کو انتہائی سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اسکول بند ہونے کے سبب متبادل کے طور پر آن لائن تعلیم کا رواج عام ضرور ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ دیکھنا چاہئے کہ آن لائن تعلیم سے ملک کے کتنے فیصد بچے استفادہ کرنے کے اہل رہے یا ان کے والدین اس حیثیت میں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو آن لائن تعلیم کے وسائل مہیا کروا سکے۔ اس سلسلہ میں نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ آنے والا وقت ملک کے مستقبل کے لئے کتنا مشکل ہونے والا ہے۔ ہر صاحب نظر حکمراں طبقہ کی ترجیحات سے بخوبی واقف ہے۔ ان کے عزائم اور ان کے مقاصد بھی سب کے سامنے ہیں۔ ملک کے پسماندہ، غریب، مزدور اور مظلوم طبقہ کے لئے سوائے تعلیم کے کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جو مستقبل کی پریشانیوں اور آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ لہذا اس پہلو کا ہم سب کو بہت گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

مارچ 2020 میں جب ملک میں کورونا وائرس نے شدت اختیار کی تو دیگر مقامات کے ساتھ ساتھ اسکول کالج بھی پوری طرح بند کر دئے گئےتھے۔ اب ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ملک کے بیشتر علاقوں میں اسکول بند ہی ہیں۔ اگرچہ فی الحال ملک میں کورونا سے حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ حالانکہ ابھی تیسری لہر کی آہٹ سے لوگوں کو خبردار بھی کیا جا رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب اب یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اسکول کھولے جائیں یا نہیں۔ جن ریاستوں میں ابھی اسکول کھلے ہیں، وہاں بھی طلبا کی موجودگی کافی کم درج کی جا رہی ہے۔ والدین میں تو خوف کا ماحول ہے ہی، خود وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچے بہت تشویشناک حد تک وائرس سے متاثر نہیں ہوں گے، لیکن وہ بڑے پیمانے پر اس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

آن لائن تعلیم میں بچوں میں پڑھائی لکھائی کے تئیں بے فکری اور بے دلی کا رجحان

ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے لے کر اب تک اس سلسلہ میں کئے جانے والے اقدامات میں کوئی پائیداری اور استحکام نہیں رہا ہے۔ نہ تو وائرس کے سلسلہ میں اور نہ ہی اس سے بچاؤ کے لئے کوئی ٹھوس طریقہ کار سامنے آ سکاہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف سطحوں پر کئے جانے والے اقدامات میں کتنا تضاد رہا ہے اور پھر ان میں بار بار تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آج تک اس وبا کے تعلق سے وسوسہ میں ہی ہیں۔ یہاں تک کہ اسکول کھل جانے کے باوجود والدین ذہنی طور پر اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کو ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کی تعلیم کا کافی نقصان ہو چکا ہے۔

بچوں کا پچھلا پورا تعلیمی سال تو نکل ہی چکا ہے، اب دوسرے تعلیمی سال پر کورونا کا سایہ برقرار ہے۔ فی الحال کورونا کے مریضوں کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے حالت سازگار نظر آتے ہیں، لیکن تیسری لہر کے خدشات کی وجہ سے حالات جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ دوسرے تعلیمی سال میں ابھی کافی وقت ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ خدا کرے جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں اور بچوں کی تعلیم کا یہ سال اسی طرح ضائع نہ ہو۔ در اصل مسئلہ صرف تعلیمی سال کا نہیں ہے، بلکہ بچوں کے پورے مستقبل کا سوال ہے۔ ہر کوئی اس بات کو محسوس کر رہا ہے اور اظہار بھی کر رہا ہے کہ آن لائن تعلیم ایک متبادل ضرور ہے، لیکن اسکول کا ماحول بچوں کو نہیں ملنے سے ان کی مجموعی نشوونما کافی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ ہم خود اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ آن لائن تعلیم میں بچوں میں پڑھائی لکھائی کے تئیں بے فکری اور بے دلی کا رجحان پیدا ہو ہے۔

اگر یہ رجحان پروان چڑھ گیا تو یہ کسی بھی ملک یا معاشرے کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طر ح معاشرے میں کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی طلبہ کی ذہنی و نفسیاتی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی بچہ اپنی سخت محنت اور جد و جہد کے بعد تعلیمی پیش رفت کرتا ہے اور اسے جو کامیابی حاصل ہوتی ہے، اس کی خوشی یقیناً اس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو بلند کر دیتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ دسویں اور بارہویں کے نتائج کے بعد محنت کرنے والے طلبہ میں وہ جوش اور ولولہ نظر نہیں آیا۔

کورونا وبا سے پیش آنے والی غیر معمولی مشکلات کے سبب بچوں کی تعلیم کے نقصان کو پُر کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئے

مئی 2021 میں بین الاقوامی ادارہ ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاروں کو کورونا وبا سے پیش آنے والی غیر معمولی مشکلات کے سبب بچوں کی تعلیم کے نقصان کو پُر کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئے۔ 125؍ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کے سبب اسکول بند ہونے سے بچے کیسے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے، کیونکہ کورونا وبا کے دوران بہت سے بچوں کے پاس سیکھنے کے لیے ضروری مواقع، ذرائع یا ان کی رسائی نہیں تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے پایا کہ وبا کے دوران آن لائن تعلیم پر ضرورت سے زیادہ انحصار نے تعلیمی امداد کی موجودہ غیر مساوی تقسیم کو فروغ دیا ہے۔ اکثر حکومتوں کے پاس آن لائن تعلیم شروع کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں، وسائل یا انفراسٹرکچر نہیں تھا، جس سے کہ سبھی بچے یکساں طور پر تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپریل 2020 سے اپریل 2021 کے درمیان 60؍ ممالک میں 470؍ سے زائد طلباء، والدین اور اساتذہ کے انٹرویو کیے۔

مئی 2021 تک 26؍ ممالک میں اسکول مکمل طور پر بند تھے اور 55؍ ملکوں میں اسکول صرف جزوی طور پر کھلے تھے۔ یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 90؍ فیصد بچوں کی تعلیم وبا کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ لاکھوں طلباء کے لیے اسکولوں کا بند ہونا صرف ان کی تعلیم میں عارضی رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ اچانک سے اس کا خاتمہ ہوگا۔ کیوں کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اکثر ملکوں میں اسکول جانے والے ان بچوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے، شادی کر لی ہے، والدین بن گئے ہیں، تعلیم سے مایوس ہو گئے ہیں، یہ مان لیا ہے کہ وہ پھر سے پڑھائی شروع نہیں کر سکیں گے یا عمر زیادہ ہو جانے کے سبب اپنے ملک کے قانون کے تحت مفت یا لازمی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔

یونیسکو کے مطابق اپریل تک 190؍ سے زائد ممالک میں 140؍ کروڑ طلباء کو ان کے پری پرائمری، پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں سے غیر معمولی طریقے سے باہر کر دیا گیا

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم یافتہ کرنے کی دہائیوں کی سست مگر مستحکم پیش رفت 2020 میں اچانک رک گئی۔ یونیسکو کے مطابق اپریل تک 190؍ سے زائد ممالک میں 140؍ کروڑ طلباء کو ان کے پری پرائمری، پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں سے غیر معمولی طریقے سے باہر کر دیا گیا۔ اسکول بند ہونے کے دوران زیادہ تر ممالک میں تعلیم یا تو آن لائن یا دیگر فاصلاتی نظام کے ذریعہ دی گئی، لیکن اس کی کامیابی اور معیار میں بہت فرق ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی، کنیکٹوٹی، رسائی، جسمانی تیاری، اساتذہ کی تربیت اور گھر کے حالات سمیت کئی مسائل نے بڑی حد تک فاصلاتی تعلیم کے عمل کو متاثر کیا۔

بہر حال، حکومتوں کو بھی اور سماجی طور پر سرگرم افراد کو بھی اس مسئلہ پر غو کرنا چاہئے۔ اگر ممکن ہو تو سب مل کر کوئی ایسی حکمت عملی بنائی جائے، جس سے کہ تعلیم سے بد دل ہو رہے اور کچھ مجبوراً دور ہو رہے بچوں کو پوری توانائی کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں میں ملوث کیا جا سکے۔ جو بچے یا ان کے والدین معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیم سے دور ہو رہے ہیں اُن کی پریشانیوں کو دورکرنے کی کوششیں کی جائیں۔ اگر ان بچوں کے مستقبل کے تئیں سوچا نہیں گیا تو یہ ملک بھر کے طلبہ کا ہمہ جہتی نقصان ہوگا اور اس کا اثر ملک کے ہر شعبۂ حیات پر پڑےگا۔ اس لئے ہر صاحب حیثیت اور ذمہ دار شہری کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں جتنا جلدی ہو سکے، غور و خوض کرکے کوئی حکمت عملی مرتب کریں۔ جس سے کہ ملک کے مستقبل کو تاریکی میں جانے سے بچایا جا سکے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments