بَہارعرب: عالم عرب اب تبدیلی کی جانب رواں دواں

کچھ عرب ملکوں میں 2010ء میں ’جمہوریت اور آزادی‘...

دہلی میں راجستھان کے وزیر اعلیٰ کے کمرے میں آگ پر قابو پا لیا گیا

 دہلی کے جودھ پور ہاؤس میں وزیر اعلی بھجن...

بھارت نے نئی نسل کی آکاش میزائل کا کامیاب تجربہ کیا

ڈی آر ڈی او نے نئی نسل کی ’آکاش...

سوشل میڈیا کے سہارے برسراقتدار آنے والے اب اسی سوشل میڈیا سے گھبرائے

جس سوشل میڈیا کے ذریعہ بی جے پی نے اپنی شبیہ بنائی تھی، آج اسی سوشل میڈیا نے لوگوں پر حقیقت آشکار کر دی ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

خبروں کی دنیا

ایک زمانہ تھا جب خبریں حاصل کرنے کے لیے شام کا یا اگلے روز کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ شام کو ریڈیو یا صبح کو جب ہاتھوں میں اخبار آتا تو معلوم ہوتا کہ شہر، ملک اور دنیا میں کیا ہلچل ہے اور کیا واقعات و حادثات پیش آئے۔ اس کے بعد دوردرشن اور پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور آیا۔ پہلے شام کو پورے دن کی خبریں اورپھر ہر گھنٹے واقعات سے آگاہی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ خبروں کی دنیا تبدیل ہوتی گئی۔

پہلے صرف خبروں کا سلسلہ اطلاعات تک محدود رہا۔ پھر خبروں پر منفی و مثبت اور حکومت کی حمایت و مخالفت کا رنگ چڑھنے لگا۔ سونے پہ سہاگا، جب پرائیویٹ نیوز چینلوں نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت خبروں کے ساتھ  بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع کیا تو ذرائع ابلاغ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔

اس مصروف ترین زندگی میں بھی یہ چینل ملک میں اپنا ایجنڈا تھوپنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گئے۔ پہلےمیٹرو شہروں، پھر چھوٹے شہروں و قصبات اور پھر گاؤوں تک ایک خاص منشا کے تحت اور مخصوص سیاسی جماعت کے ایجنڈے کے مطابق ان کی یہ مہم رنگ لائی۔ اس سے بھی دل نہیں بھرا تو سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا۔

سوشل میڈیا کا سیاسی استعمال

تمام تر مصروفیات زندگی کے باوجود خبریں حاصل کرنے میں سوشل میڈیا کار آمد تو ثابت ہوا، لیکن حد سے زیادہ منفی استعمال نے سوشل میڈیا کی افادیت کو خاک میں ملا دیا۔ اس سے سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت پر بھلے ہی حرف آیا ہو، لیکن 2014 کے عام انتخابات اور اس سے پہلے بی جے پی نے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں بی جے پی نے کانگریس سمیت باقی سبھی جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بر سر اقتدار آنے کے بعد بھی بی جے پی نے منفی یا مثبت، جس طریقے سے بھی استعمال کیا، سوشل میڈیا کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اب 2021 آتے آتے یہی سوشل میڈیا اس کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے۔ جس سوشل میڈیا کے ذریعہ بی جے پی نے لوگوں کو گمراہ کرکےاپنی شبیہ بنائی تھی، آج اسی سوشل میڈیا نے لوگوں پر حقیقت آشکار کر دی ہے۔

وقت وقت کی بات ہے جو ایک سا نہیں رہتا!، سوشل میڈیا نے ہی اگر کسی کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا تو کسی کا مکرو چہرہ بھی سامنے لادیا۔ خاص طور پر کورونا کی وبا کے دور میں بی جے پی، اس کی حکومتوں اور اس کے لیڈران کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

غیر جانب دار سوشل میڈیا؟

سخت مشکل کی اس گھڑی میں لوگ دوا، علاج، اسپتال، آکسیجن، وینٹی لیٹرکے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے، اسپتالوں کے باہر لائن میں لگے دم توڑتے رہے۔ حد تو یہ کہ مہلوکین اپنے مذہب کے مطابق آخری رسوم سے بھی محروم ہو گئے۔ ان کے ورثا گھنٹوں قطاروں میں لگ کر بھی اپنے عزیزوں کواحترام کے ساتھ آخری وداعی بھی نہ دے سکے۔ ان سب کو بھی حکومت نے اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کی، لیکن سوشل میڈیا اور غیر جانبدار مین اسٹریم میڈیا نے حکومت کی سچائی دنیا کے سامنے لاکر رکھ دی ہے۔ یہاں تک کہ عالمی میڈیا نے بھی سچائی بیان کر کے موجودہ حکومت اور اس کے کارندوں کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔

اب حکومت کو فکر لاحق ہوئی ہے۔ فکر اس بات کی نہیں ہے کہ ملک کےباشندوں پر مصیبت کے جو پہاڑ ٹوٹے ان کا سد باب کیسے ہو، بلکہ فکر اس بات کی ہے کہ اس نے مفروضے کی بنیادوں پر دنیا کے سامنے جو شبیہ بنائی ہے، اس کو کیسے برقرار رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بی جے پی حکومت کو اپنی کوتاہیاں، اپنی ناکامیاں اور اپنی تنقیدیں برداشت نہیں ہو رہی ہیں۔

حکومت سوشل میڈیا سے خوفزدہ

جس سوشل میڈیا کو وہ اپنا خاص آلہ کار سمجھتی تھی، اب اسی سے خوفزدہ نظر آتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا کے تعلق سے حکومت کی سرگرمیاں اور کارروائیاں تو یہی ظاہر کرتی ہیں۔ دہلی پولیس کے ذریعہ پیرکی شام ٹوئٹر انڈیا کے مختلف دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے یہ چھاپے’ٹول کٹ‘ معاملے کی جانچ کے سلسلے میں مارے گئے۔

اس سے پہلے دہلی پولیس نے بی جے پی لیڈرسمبت پاترا کے ٹویٹ کو’مینی پلوٹیڈ میڈیا‘ ( مفروضے کی بنیاد پر) قراردینے کے معاملے میں ٹوئٹر انڈیا کو شواہد پیش کرنے کے لئے نوٹس جاری کیا تھا۔ جس پر ٹویٹر نے کہا تھا کہ اس سلسلہ میں معلومات فراہم کرنا ضروری نہیں ہے۔

ٹول کٹ معاملہ

سمبت پاترا نے 18 مئی کو ایک مبینہ ’ٹول کٹ‘ شیئر کیا تھا جوکہ کانگریس کے لیٹر ہیڈ پرتھا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ٹویٹ اور معلومات کو کس طرح شیئر کرنا ہے۔ بی جے پی کے سبھی لیڈران اس پر کانگریس پر حملہ کر رہے تھے۔ دوسری طرف کانگریس نے اس کو فرضی قراردیا تھا۔ پارٹی نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی۔ اس کے اگلے ہی دن ٹوئٹر نے کارروائی کی اور سمبت پاترا کے ٹویٹ کو گمراہ کن یعنی ’مینی پلوٹیڈ میڈیا‘ قراردیا۔

در اصل ٹوئٹر کی ایک پالیسی ہے، جس کے مطابق اگر آپ کوئی بھی معلومات ٹویٹ کرتے ہیں اور وہ حقائق کے برعکس ہے تو اس پر ایک لیبل لگادیا جاتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس سے بی جے پی اور حکومت سخت برہم ہے۔ اس سے پہلے بھی بی جے پی کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی نفرت انگیز مہم پروان چڑھانے کے سبب ٹوئٹر نے کنگنا راناوت نامی اداکارہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہمیشہ کے لئے سسپینڈ کر دیا تھا۔

ابھی ٹول کٹ کا تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ اب مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے سامنے ایک نئی پریشانی آ گئی ہے۔ حکومت نے رواں سال 25 فروری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لئے گائیڈ لائن جاری کی تھی اور ان پر عمل درآمد کے لئے تین ماہ کا وقت دیا۔ یہ 25 مئی کو ختم ہورہی ہے۔ ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ابھی تک نہیں بتایا ہے کہ آیا اس ہدایت نامے پر عمل درآمد ہوا ہے یا نہیں۔ ایسی صورت حال میں حکومت ان پر کارروائی کر سکتی ہے۔

فیس بک کا جواب

فیس بک نےاپنے جواب میں کہا ہے کہ وہ آئی ٹی کے ضابطوں پر عمل کرے گی۔ نیز، کچھ امور پر حکومت سے بات بھی کرتے رہیں گے۔ فیس بک نے یہ بھی بتایا ہے کہ آئی ٹی کے ضابطوں کے مطابق آپریشنل طریقہ کار نافذ کرنے اور استعداد کار بڑھانے پرکام جاری ہے۔ کمپنی اس بات کا خیال رکھے گی کہ لوگ ہمارے پلیٹ فارم کے ذریعے آزادانہ اور محفوظ طریقے سے اپنی بات کہہ سکیں۔

حکومت نے سوشل میڈیا کے لئے جو گائیڈ لائنز جاری کی ہے، اس کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹوں مثلاً ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام اور وہاٹس ایپ کو حکومت کے مطابق مزید ’شفافیت‘ لانا ہوگی۔ اس کے لئے حکومت کی جانب سے مختلف شرائط پیش کی گئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کس حد تک حکومت ہند کی شرائط کو مانتی ہیں اور اس کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں۔ ٹوئٹر کے رخ کو دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا کہ وہ حکومت کی شرائط پر کام کرے گی۔

تنقید ناقابل برداشت؟

بہر حال، مذکورہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہمارا ملک اب ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے جہاں مخالفت میں کی جانے والی تنقید بالکل برداشت نہیں کی جائے گی۔ دنیا بھر میں اداروں، حکومتوں، جماعتوں اور تنظیموں پر ایک دائرے میں تنقید اور ان کی مخالفت ہونا عام بات ہے، لیکن یہاں ایسا لگتا ہے کہ اس دائرے کو بہت محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا سے قبل اخبارات، ٹیلی ویژن اور عوامی جلسوں کے ذریعے تنقید کی جاتی تھی، مگر سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کے بعد مخالفت اور تنقید کرنے کا یہ بڑا سہارا بن گیا۔ اگر ہم غور کریں تو موجود کورونا وبا کے بحران میں لوگوں کو اسی سوشل میڈیا نے بڑا سہارا دیا ہے۔

ہر طرف سے مایوس اور نا امید ہو چکے لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر مدد ملی اور اسپتال سے لے کر دوا اور علاج تک ضرورت مندوں کو مہیا کیا جا سکا۔ اس کے بعد بھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح مدد کرنے والوں کو پریشان کیا گیا۔ ایسے میں  سوال پیدا ہوتا کہ کیا سوشل میڈیا کے ساتھ مدد کرنے والوں پر بھی پہرا بٹھا دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک جمہوری اور آزاد ملک کے مستقبل کے لئے کہیں سے بہتر نہیں ہے۔

[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]

ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں